وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
جو کچھ والدین اور قرابتی چھوڑیں ‘ اس میں ہر کسی کے وارث ہم نے مقرر کردیئے ہیں اور جن سے تم نے اقرار باندھا ہے ان کا حصہ انہیں دو ۔ بےشک ہر شے خدا کے روبرو ہے (ف ١)
وَ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ: اس آیت کریمہ کے پہلے حصے میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ مرد ہو یا عورت ہر ایک کے ورثا اور رشتے دار ہوتے ہیں، جو اس کے مرنے کے بعد اس کے وارث بنتے ہیں۔ آیت کے دوسرے حصے ﴿وَ الَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ فَاٰتُوْهُمْ نَصِيْبَهُمْ﴾ کا مفہوم یہ ہے کہ تم نے جو حلف یا معاہدہ کسی کے ساتھ کیا ہوا ہے تو اس کا حصہ اسے دو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب مہاجرین مدینہ آئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ قائم کر دیا تھا، انصاری کا وارث اس کے رشتے داروں کے بجائے مہاجر ہوتا تھا، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی : ﴿ وَ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ ﴾ تو وہ (وراثت جو مہاجرین اور انصار کے درمیان قائم کی گئی تھی) منسوخ ہو گئی، پھر فرمایا :﴿وَ الَّذِيْنَ عَقَدَتْ اَيْمَانُكُمْ﴾ سے مراد یہ ہے کہ نصرت، اعانت اور نصیحت کی صورت میں انھیں ان کا حصہ دو، کیونکہ میراث سے ان کا تعلق ختم ہو گیا ہے، ہاں! البتہ ان کے لیے وصیت کی جا سکتی ہے۔ [بخاری، التفسیر، باب :﴿ ولکل جعلنا موالی …﴾ : ۴۵۸۰ ] نیز دیکھیے سورۂ انفال کی آخری آیت۔ مولانا محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ آیت میں ’’مَوَالِيَ ‘‘ سے مراد عصبہ ہیں اور عصبہ کی وراثت میں ”اَلْأَقْرَبُ فَالْأَقْرَبُ“ کا اصول مقرر ہے، یعنی اول سب سے قریبی، پھر دوسرا اور ایک حدیث میں بھی [ فَلِأَوْلٰي رَجُلٍ ذَكَرٍ ] کے الفاظ ہیں، یعنی اصحاب فروض سے جو کچھ بچ جائے گا وہ عصبہ میں سے اس شخص کو ملے گا جو میت کے مردوں میں سب سے زیادہ قریب ہو گا اور اس پر علماء کا اجماع بھی ہو چکا ہے۔ [ دیکھیے فتح الباری :6؍294۔ المحلٰی :9؍271۔ أحکام القرآن للجصاص :2؍224]