وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور شوہر والی عورتوں کا نکاح میں لانا بھی حرام ہے مگر جو تمہارے ہاتھ کی ملک ہوجائیں ، یہ اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے اور ان کے سوا سب عورتیں (نکاح کرنے کو ) حلال ہیں ، یوں کہ تم اپنے مال دے کر طلب کرو ۔ بحالیکہ تم قید میں لانے والے ہو نہ کہ مستی نکالنے والے پس جو مال کہ فائدہ اٹھایا ہے تم نے بدلے اس کے ان سے سو دو انکوحق ان کا موافق مقرر کے اور تم پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ بعد مقرر کرنے مہر کے کسی بات پر آپس میں راضی ہوجاؤ بےشک خدا جاننے (ف ١) والا حکمت والا ہے ۔
1۔ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ:اوپر کی آیت میں حرام رشتوں کا ذکر تھا، وہ تو بہر صورت حرام ہیں، خواہ ان میں سے کوئی عورت کسی کی لونڈی بن کر آ جائے۔ اس بنا پر علماء نے لکھا ہے کہ دو بہنوں کو جمع کرنا صرف نکاح ہی میں نہیں بلکہ ایک مالک کی لونڈیاں ہوں تب بھی اسے دونوں سے صحبت حرام ہے۔(ابن کثیر) اب یہاں فرمایا کہ جن عورتوں کے شوہر موجود ہوں ان سے نکاح بھی حرام ہے، ہاں جنگ کی صورت میں دارالحرب سے جو عورتیں قیدی بن کر آئیں تو اموال غنیمت کی تقسیم کے بعد جن کے حصہ میں آئیں گی ان کے لیے ’’استبراء‘‘ کے بعد ان سے صحبت جائز ہے، خواہ پیچھے ان کے خاوند موجود ہی کیوں نہ ہوں۔ ’’استبراء‘‘ یہ ہے کہ وہ عورت ایک حیض سے پاک ہو جائے، یا اگر حاملہ ہے تو وضع حمل ہو جائے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (۸ھ میں) حنین کے دن اوطاس کی طرف ایک لشکر روانہ فرمایا، ان کا مقابلہ دشمن سے ہوا تو انھوں نے مقابلہ کیا اور فتح پائی، بہت سے قیدی ان کے ہاتھ آئے، (تقسیم کے بعد جو لونڈیاں حصے میں آئیں) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان قیدی عورتوں سے صحبت کو گناہ سمجھا، اس لیے کہ ان کے مشرک شوہر موجود تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :﴿ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ﴾ یعنی عدت کے بعد وہ تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں۔ [ مسلم، الرضاع، باب جواز وطیٔ المسبیۃ....: ۱۴۵۶ ] 2۔ احصان کا لفظی معنی محفوظ کرنا ہے، قرآن مجید میں یہ لفظ چند معانی میں آیا ہے : (1) شادی شدہ عورتوں کے معنی میں، جیسے اس آیت کے شروع میں ”الْمُحْصَنٰتُ“ ( صاد کے فتحہ کے ساتھ) اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ (2) آزاد عورتوں کے معنی میں، جیسے اگلی آیت میں ہے۔ (3) پاک دامن عورتوں کے معنی میں، جیسے اس سے اگلی آیت میں اور سورۂ مائدہ(۵) میں ہے۔ 3۔ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ: یعنی جن حرام رشتوں کا اوپر ذکر ہوا ہے، ان سے نکاح نہ کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کا ماننا تم پر لازم ہے۔ (ابن کثیر) 4۔ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ: اور ان کے علاوہ جو عورتیں ہیں وہ تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں، بشرطیکہ حدیث میں ان کی حرمت نہ آئی ہو، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کے ساتھ اس کی خالہ یا پھوپھی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے سے منع فرمایا۔ ایسی ہی چند اور صورتیں بھی ہیں، مثلاً چار سے زیادہ عورتیں بیک وقت نکاح میں رکھنا، یا نکاح متعہ کرنا یا حلالہ کرنا، یا بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بنت عدو اللہ (ابوجہل) کو ایک نکاح میں جمع کرنا یا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا، یا نکاح شغار یعنی وٹہ سٹہ کا نکاح جس میں یہ شرط ہو کہ اگر تم رشتہ دو گے تو میں رشتہ دوں گا، اس شرط کے بعد مہر مقرر ہو تب بھی نکاح حرام ہے۔ جیسا کہ ابوداؤد میں ہے کہ عباس بن عبد اللہ بن عباس نے عبد الرحمان بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا اور عبد الرحمان بن حکم نے اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کر دیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان کی طرف خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ ان دونوں کے درمیان علیحدگی کروا دیں اور دونوں نے مہر بھی مقرر کیا تھا۔ [ أبوداؤد، النکاح، باب فی الشغار : ۲۰۷۵۔ و صححہ الألبانی ] 5۔ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ: موضح میں ہے کہ ان مذکورہ محارم کے سوا سب حلال ہیں، مگر چار شرطوں کے ساتھ، اول یہ کہ طلب کرو، یعنی دونوں طرف سے زبانی ایجاب و قبول ہو، دوسرے یہ کہ مال یعنی مہر دینا قبول کرو، تیسرے یہ کہ ان عورتوں کو قید (دائمی قبضہ) میں لانا غرض ہو، ( صرف) مستی نکالنے کی غرض نہ ہو ( جیسے زنا میں ہوتا ہے) یعنی وہ عورت اس مرد کی بندی ہو جائے، چھوڑے بغیر نہ چھوٹے، یعنی کسی مہینے یا برس (مدت) کا ذکر نہ آئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ متعہ حرام ہے( اور حلالہ بھی، کیونکہ اس میں بھی جماع کے بعد طلاق کی نیت ہوتی ہے۔) چوتھی یہ کہ چھپی یاری نہ ہو، مراد لوگ نکاح کے شاہد ہوں، کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں، یہی چار شرطیں اس آیت سے سمجھ میں آ رہی ہیں۔ اس چوتھی شرط میں یہ بھی شامل ہے کہ نکاح ولی کرکے دے، کیونکہ ولی کے بغیر نکاح چھپی یاری میں داخل ہے۔ اسلام نے ولی کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیا قرآن و حدیث کے دلائل کے لیے دیکھیے صحیح بخاری میں ’’کتاب النكاح، باب من قال لا نكاح إلا بولي: ۵۱۲۷‘‘ 6۔ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ: یعنی نکاح کے بعد جن عورتوں سے فائدہ اٹھاؤ، یعنی صحبت کرو ان کے پورے مہر ان کے حوالے کرو۔ اکثر پہلے اور پچھلے مفسرین نے یہی معنی کیے ہیں کہ استمتاع سے مراد نکاح شرعی (جس کی چار شرطوں کا اوپر ذکر آیا ہے) کے بعد صحبت ہے۔ رافضیوں نے اس سے متعہ کا جواز ثابت کیا ہے، مگر علمائے اہل سنت بالاجماع اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ ہجرت کے ابتدائی برسوں میں بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس آیت کی رو سے نہیں بلکہ) اس رواج کی بنیاد پر جو اسلام سے پہلے چلا آ رہا تھا (جسے استصحابِ حال کہتے ہیں) بعض مواقع پر حسب ضرورت متعہ کی اجازت دی، مگر بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح الفاظ میں اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا۔ سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’لوگو ! میں نے تمھیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی مگر اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت کے دن تک کے لیے حرام قرار دے دیا ہے، سو اب جن کے پاس متعہ والی عورتیں ہیں وہ انھیں چھوڑ دیں اور جو مال تم نے انھیں دیا ہے وہ ان سے واپس نہ لو۔‘‘ [ مسلم، النکاح، باب نکاح المتعۃ.... :21؍ 1406 ] نیز متعہ والی عورتیں نہ لونڈیاں ہیں نہ بیویاں تو ان سے متعہ کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ دیکھیے سورۂ مومنون (۵ تا ۷)۔ 7۔وَ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ:یعنی اگر خاوند اور بیوی باہمی رضا مندی سے طے شدہ مہر میں کمی بیشی کر لیں تو کچھ حرج نہیں ہے۔