سورة الحديد - آیت 19

وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ۔ وہی اپنے رب کے پاس سچے ایمان والے اور شہید (ف 2) ہیں ۔ انہیں ان کا اجر اور ان کا نور ملے گا ۔ اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی دوزخی ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ ....:’’ الصِّدِّيْقُوْنَ‘‘ اور ’’ الشُّهَدَآءُ ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ نساء کی آیت (۶۹) کی تفسیر۔ اس آیت پر بھی ایک سوال ہے کہ صدیقین اور شہداء تو ایمان کے بلند درجے پر فائز لوگ ہوتے ہیں، جب کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے والے سب لوگوں کو صدیقین و شہداء کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانے والوں سے مراد یہاں اس ایمان میں کامل لوگ ہیں۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ آیت ( ۷) : ﴿ اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ﴾ میں ایمان والوں کو ایمانِ کامل لانے کا حکم ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسولوں پر کامل ایمان رکھنے والے ہی صدیقین اور شہداء ہیں۔ ’’ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ‘‘ میں حصر کا مفہوم ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیقین اور شہداء کے لیے جو درجے ہیں وہ ہر مدعی ٔ ایمان کو حاصل نہیں ہو جائیں گے، بلکہ یہ صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہیں جو اللہ اور اس کے رسولوں پر سچا اور پکا ایمان لائیں گے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ کمال ایمان کے کئی مراتب ہیں، جیسا کہ صدیقیت و شہادت کے کئی مراتب ہیں، اگرچہ سب پر صدیق یا شہید کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَی الْقَتْلِ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهٗ الْمَطْعُوْنُ شَهِيْدٌ، وَالْغَرِيْقُ شَهِيْدٌ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيْدٌ ، وَالْمَبْطُوْنُ شَهِيْدٌ، وَصَاحِبُ الْحَرِيْقِ شَهِيْدٌ، وَالَّذِيْ يَمُوْتُ تَحْتَ الْهَدْمِ شَهِيْدٌ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوْتُ بِجُمْعٍ شَهِيْدَةٌ )) [مستدرک حاکم:1؍352، ح : ۱۳۰۰، وصححہ الألباني في صحیح الجامع : ۳۷۳۹ ] ’’اللہ کی راہ میں قتل ہونے کے علاوہ شہادت کی سات قسمیں ہیں، طاعون سے مرنے والا شہید ہے اور غرق ہونے والا شہید ہے اور ذات الجنب والا شہید ہے اور پیٹ کی تکلیف سے مرنے والا شہید ہے اور آگ سے مرنے والا شہید ہے اور گرنے والی دیوار وغیرہ کے نیچے آ کر مرنے والا شہید ہے اور ولادت کے وقت مرنے والی عورت شہید ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ حدیث میں مذکور سب لوگ شہید ہیں، مگر اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کا درجہ سب سے بلند ہے۔ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَ نُوْرُهُمْ: یعنی صدیقیت یا شہادت کے مراتب کے مطابق اجر اور نور اہل ایمان ہی کا حصہ ہے، کفار یا منافقین کا نہیں۔ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا ....: اس سے معلوم ہوا کہ جہنم میں ہمیشہ وہی لوگ رہیں گے جنھوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کیا اور ان کی تکذیب کی، کیونکہ’’ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ‘‘ (بھڑکتی آگ کے ساتھی اور اس میں رہنے والے) وہی ہیں، گناہ گار مومن جہنم میں گئے بھی تو ہمیشہ اس میں نہیں رہیں گے، اس لیے وہ ’’ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ‘‘ نہیں ہیں۔