أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ
بھلا دیکھو تو پانی جو تم پیتے ہو۔
1۔ اَفَرَءَيْتُمُ الْمَآءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ ....: ’’ الْمُزْنِ ‘‘ اسم جمع ہے، بادل۔ مفرد اس کا ’’مُزْنَةٌ‘‘ ہے۔ تیسیر القرآن میں ہے:’’یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک اور کرشمہ ہے، سطح سمندر سے سورج کی حرارت کی وجہ سے آبی بخارات اٹھتے ہیں۔ یہی بخارات بعد میں بادلوں کی شکل اختیار کر کے بارش کی صورت میں برستے ہیں۔ سمندر کا پانی جس سے بخارات اٹھتے ہیں، سخت نمکین اور چھاتی جلانے والا ہوتا ہے، مگر جو بارش برستی ہے اس میں نمکینی نام کو نہیں ہوتی۔ حالانکہ جن جڑی بوٹیوں یا دواؤں کا ہم اس طرح عرق کشید کرتے ہیں ان میں ذائقہ بھی منتقل ہوتا ہے اور ُبو بھی۔ مثلاً سونف یا اجوائن یا گاؤ زبان یا گلاب کے عرق میں ان اشیاء کا ذائقہ بھی منتقل ہو جاتا ہے اور ُبو بھی، لیکن سمندر کے پانی کی نمکینی آبی بخارات کے ساتھ منتقل نہیں ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے، ورنہ اس زمین کا کوئی جاندار ایسا پانی پی کر زندہ ہی نہ رہ سکتا اور نہ ہی ایسے پانی سے پیداوار اُگ سکتی ہے جو پانی کے بعد جانداروں کی زندگی کا دوسرا بڑا سہارا ہے۔‘‘ (بتصرف) 2۔ قیامت کی دلیل کے طور پر انسان کی پہلی پیدائش کا ذکر فرمایا اور زمین سے مردہ بیج سے کھیتی اگانے کا ذکر فرمایا۔ کھیتی اگانے میں پانی خصوصاً بارش کا دخل ظاہر ہے، اس لیے اس کا ذکر فرمایا۔ قیامت کے دن انسانی جسم بھی بارش سے اگیں گے۔ حدیث کے لیے دیکھیے سورۂ نمل (۸۷) کی تفسیر۔ اللہ تعالیٰ نے بارش کو قیامت کے علاوہ اپنی توحید کی دلیل کے طور پر بھی جا بجا پیش فرمایا ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱، ۲۲)، نمل (۶۰)، عنکبوت (۶۳) اور سورۂ روم (۴۸ تا ۵۱)۔