أَفَرَأَيْتُم مَّا تُمْنُونَ
بھلا دیکھو ۔ تو تم جو منی ٹپکاتے ہو
اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ ....: ’’ تُمْنُوْنَ ‘‘ ’’أَمْنٰي يُمْنِيْ إِمْنَاءً ‘‘ (افعال) (گرانا، ٹپکانا) سے جمع مذکر حاضر مضارع معلوم ہے۔ ’’اَفَرَءَيْتُمْ ‘‘ میں رؤیت سے مراد رؤیت علمی ہے، کیونکہ یہ آنکھوں سے نظر آنے والی چیز نہیں۔ (دیکھیے سورۂ یٰس : ۷۷) منی کے قطرے سے انسان کی پیدائش کا قیامت کی دلیل ہونا ایسی بات ہے جس پر غور کرنا ہر شخص پر واجب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے، فرمایا : ﴿ فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (4) خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ﴾ [الطارق : ۵،۴ ] ’’پس انسان کو لازم ہے کہ دیکھے وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا۔وہ ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ ‘‘ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ طارق (۵ تا ۸) کی تفسیر۔ مفسر عبدالرحمن کیلانی لکھتے ہیں: ’’پہلی قابلِ غور بات یہ ہے کہ انسان کا نطفہ بذات خود کیا چیز ہے؟ وہ کن چیزوں سے بنتا ہے ؟ پھر جن چیزوں سے بنتا ہے وہ زندہ تھیں یا مردہ؟ اور اس نطفہ کے بننے یا بنانے میں تمھارا بھی کچھ عمل دخل یا اختیار تھا؟ پھر اس نطفہ کو رحمِ مادر میں ٹپکانے کی حد تک تو اختیار انسان کو ہے، اس کے بعد اس کا اختیار کلی طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ نطفہ کا ایک قطرہ لاکھوں جراثیم، کیڑوں پر مشتمل ہوتا ہے جو صرف طاقتور خورد بین سے نظر آ سکتے ہیں۔ اسی طرح رحمِ مادر میں نسوانی بیضہ کا وجود بھی خورد بین کے بغیر نظر نہیں آ سکتا۔ نطفہ کا ایک جرثومہ جب نسوانی بیضہ میں داخل ہوتا ہے، پھر ان دونوں کے ملنے سے ایک چھوٹا سا زندہ خلیہ (Cell) بن جاتا ہے، یہی انسانی زندگی کا نقطۂ آغازہے اور اسی کا نام استقرارِ حمل ہے، نطفہ ٹپکانے کی حد تک مرد کو اختیار ہے، مگر یہ طاقت نہ مرد میں ہے نہ عورت میں اور نہ دنیا کی کسی اور ہستی میں کہ وہ نطفہ سے حمل کا استقرار کرا دے، پھر اس نقطۂ آغاز سے ماں کے پیٹ کی تاریکیوں میں بچے کی درجہ بدرجہ پرورش، ہر بچے کی الگ الگ صورت گری، ہر بچے کے اندر مختلف ذہنی و جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب کے ساتھ رکھنا جس سے وہ ایک امتیازی انسان بن کر اٹھے، کیا یہ ایک خالق کے سوا کسی اور کا کام ہو سکتا ہے؟ یا اس میں ذرہ برابر بھی کسی (ڈاکٹر، ولی یا پیر فقیر یا کسی) دوسرے کا کوئی دخل ہے؟ پھر یہ فیصلہ کرنا بھی اللہ کے اختیار میں ہے کہ بچہ لڑکا ہو یا لڑکی، خوش شکل ہو یا بدشکل، اس کے نقوش تیکھے ہوں یا بھرے؟ طاقتور اور قد کاٹھ والا ہو یا کمزور، نحیف اور تھوڑے وزن والا، تندرست ہو یا اندھا بہرا لنگڑا، ذہین ہو یا کند ذہن۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جو خالصتاً اللہ تعالیٰ خالق کائنات کے اختیار میں ہیں، کیا ان سب باتوں کو سمجھ لینے کے بعد بھی انسان یہ تصدیق نہیں کر سکتا کہ اسے پیدا کرنے والا اکیلا رب العالمین ہے اور یہ کہ وہ جو مردہ نطفے سے ہر روز لاکھوں کروڑوں کی تعدادمیں انسان اور دوسرے جاندار پیدا کر رہا ہے وہ مرنے کے بعد انسانوں کے بے جان ذرّات کو دوبارہ بھی زندگی بخش سکتا ہے؟‘‘ (تیسیر القرآن) اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر پہلی دفعہ پیدا کرنے کو دوبارہ پیدا کرنے کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ دیکھیے سورۂ روم (۲۷)، انبیاء (۱۰۴)، حج (۵)، یٰس (۷۷ تا ۷۹)، بنی اسرائیل (۵۱)، مریم (۶۷) اور سورۂ قیامہ (۳۶تا ۴۰)۔