سورة الرحمن - آیت 78

تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

تیرے رب کا نام بزرگی اور تعظیم اور بڑی برکت (ف 3) والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

تَبٰرَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ:’’ تَبٰرَكَ ‘‘ باب تفاعل ہے، جب اس میں تشارک مقصود نہ ہو تو مبالغہ مراد ہوتا ہے، یعنی بہت برکت والا ہے تیرے رب کا نام۔ پھر جب اس کا نام بہت برکت والا ہے تو اس کی ذات پاک کس قدر بابرکت ہو گی۔ ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ استغفار کرتے اور یوں کہتے : (( اَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْكَ السَّلاَمُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِْكْرَامِ )) [مسلم، المساجد، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ ....:۵۹۱ ] ’’اے اللہ! تو ہی سلامتی والا ہے اور تجھی سے سلامتی ہے اے جلال اور اکرام والے!‘‘ اس دعا میں کئی لوگ ان الفاظ کا اضافہ کرتے ہیں : ’’ وَإِلَيْكَ يُرْجَعُ السَّلاَمُ حَيِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلاَمِ وَ أَدْخِلْنَا دَارَ السَّلاَمِ ۔‘‘ یہ الفاظ حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔ ’’ ذِي الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ ‘‘ اللہ تعالیٰ کا ایسا بابرکت نام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کثرت سے پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَلِظُّوْا بِيَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِْكْرَامِ )) [ترمذي، الدعوات، باب:۳۵۲۴، وقال الألباني صحیح] ’’ يَا ذَا الْجَلَالِ وَ الإِْكْرَامِ ‘‘ سے چمٹ جاؤ، اسے لازم پکڑ لو۔‘‘ ’’أَلِظُّوْا‘‘ ’’أَلَظَّ يُلِظُّ إِلْظَاظًا‘‘ سے ہے جس کا معنی ’’چمٹ جانا‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کو لازم پکڑنے کے حکم سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ کس قدر بابرکت نام ہے۔