سورة الرحمن - آیت 33

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اے جنوں اور آدمیوں کی قوم اگر تم سے ہوسکے تو آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل بھاگو ۔ تو نکل کر بھاگ دیکھو ، تم بن غلبہ کے بھاگ نہیں سکتے ۔ اور وہ غلبہ تم میں ہے نہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ ....: ’’مَعْشَرٌ‘‘ ’’عَشْرٌ‘‘ سے ’’مَفْعَلٌ‘‘ کے وزن پر ہے، کثیر التعداد جماعت کو کہتے ہیں، کیونکہ اس میں بہت سے عشرات پائے جاتے ہیں، جن کا شمار یکے بعد دیگرے دہائیوں میں ہوتا ہے۔ ’’ اَقْطَارِ ‘‘ ’’قَطْرٌ‘‘ کی جمع ہے، کنارا۔ ’’سُلْطَانٌ‘‘ قدرت اور غلبہ۔ یعنی اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! دنیا میں اگر تم موت سے بچنے کے لیے آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ، مگر تم اللہ تعالیٰ پر غالب آ کر ہی نکل سکو گے، جس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جیسا کہ فرمایا : ﴿اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ ﴾ [ النساء : ۷۸ ] ’’تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔‘‘ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے محاسبے اور اس کی گرفت سے بچنے کے لیے اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ…۔ اس سے ملتا جلتا مفہوم اس آیت کا ہے، فرمایا : ﴿فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ (7) وَ خَسَفَ الْقَمَرُ (8) وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ (9) يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍ اَيْنَ الْمَفَرُّ (10) كَلَّا لَا وَزَرَ (11) اِلٰى رَبِّكَ يَوْمَىِٕذِ الْمُسْتَقَرُّ﴾ [ القیامۃ : ۷ تا ۱۲ ] ’’پھر جب آنکھ پتھرا جائے گی۔ اور چاند گہنا جائے گا۔ اور سورج اور چاند اکٹھے کر دیے جائیں گے۔ انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟ ہرگز نہیں، پناہ کی جگہ کوئی نہیں۔ اس دن تیرے رب ہی کی طرف جا ٹھہرنا ہے۔‘‘ آج کل راکٹ یا خلائی گاڑی کے ذریعے سے چاند پر یا کسی اور کُرے پر جانے کے تجربات ہو رہے ہیں، بعض لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ ’’ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ ‘‘ (تم غلبے کے بغیر نہیں نکل سکو گے) سے مراد یہ ہے کہ ان مشینوں کے ذریعے سے ’’ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ‘‘ سے نکلنا ممکن ہے، حالانکہ ان کوششوں کی آیت کے مفہوم کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں۔ یہ بے چارے تو زمین و آسمان کے درمیان خلا میں پھر رہے ہیں، آسمان و زمین کے کناروں تک رسائی تو بہت دور ہے۔ پھر وہ ذرۂ بے مقدار، جس کا ایک سانس بھی اس کے اپنے اختیار میں نہیں، وہ اپنی قوت کے ساتھ ’’ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ‘‘ سے نکلنے کی بات کرے تو یہی کہا جا سکتا ہے: بت کریں آرزو خدائی کی شان ہے تیری کبریائی کی