سورة النجم - آیت 18

لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى:’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، یعنی قسم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔ ان بہت بڑی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی تو جبریل علیہ السلام ہیں، جنھیں دو دفعہ دیکھنے کے ذکر کے لیے یہ آیات نازل ہوئیں، اس کے علاوہ احادیثِ معراج میں اور بہت سی نشانیوں کا ذکر ہے جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر دیکھا۔ ان میں براق، ساتوں آسمانوں کے عجائبات اور ان پر انبیائے کرام کی ملاقات، دجال، سدرۃ المنتہیٰ، جنت و جہنم، جہنم کا خازن مالک، نہر کوثر، بیت المعمور، چار دریا، وہ (مستوی) بلند ہموار جگہ جس پر چڑھے تو قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں اور دوسری نشانیاں شامل ہیں، اختصار کے پیشِ نظر ان کی تفصیل ترک کی جاتی ہے۔ 2۔ یہ آیت واضح دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ ’’ لَقَدْ ‘‘ کے تاکیدی الفاظ کے ساتھ یہ نہ فرماتے کہ ’’بلاشبہ یقیناً اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘ بلکہ یہ فرماتے کہ ’’بلاشبہ یقیناً اس نے اپنے ربِ اعلیٰ کو دیکھا۔‘‘ 3۔ جیسا کہ پیچھے گزرا ہے کہ ’’ شَدِيْدُ الْقُوٰى ‘‘ اور ’’ ذُوْ مِرَّةٍ ‘‘ سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں اور ’’ دَنَا فَتَدَلّٰى ‘‘ اور ’’ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ ‘‘ کی ضمیر غائب سے بھی وہی مراد ہیں اور ’’ وَ لَقَدْ رَاٰهُ ‘‘ میں ضمیر’’هُ ‘‘ سے مراد بھی جبریل علیہ السلام ہیں۔ قرآن مجید سے اس کی تائید اور صحیح روایات سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر بھی گزر چکی ہے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنھا سے بھی یہی تفسیر مروی ہے۔ [ دیکھیے مسلم، الإیمان، باب معنی قول اللّٰہ عزوجل : ﴿ولقد راٰہ نزلۃ أخری﴾ : ۱۷۵،۱۷۷ ] مگر بعض مفسرین نے ان الفاظ اور ضمیروں کا مصداق اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دو دفعہ دیکھا ہے۔ اس کی تائید میں انھوں نے ابنِ عباس رضی اللہ عنھما کا قول پیش کیا ہے : (( عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : ﴿مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى﴾ ، ﴿وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى﴾ قَالَ رَآهُ بِفُؤَادِهِ مَرَّتَيْنِ )) [ مسلم، الإیمان، باب معنی قول اللّٰہ عزوجل : ﴿ولقد راٰہ نزلۃ أخرٰی﴾....: ۱۷۶ ] ’’ابو العالیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ’’ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى‘‘ اور ’’وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى ‘‘کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے دل کے ساتھ دوبار دیکھا۔ ‘‘ اس میں شک نہیں کہ آیات کے الفاظ میں ابنِ عباس رضی اللہ عنھما والی تفسیر کی گنجائش موجود ہے، مگر صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ ظاہر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صراحت کے بعد کسی اور تفسیر کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اب آپ حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں، مسروق کہتے ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنھا کے ہاں ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انھوں نے فرمایا : (( يَا أَبَا عَائِشَةَ! ثَلاَثٌ مَنْ تَكَلَّمَ بِوَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَی اللّٰهِ الْفِرْيَةَ، قُلْتُ مَا هُنَّ؟ قَالَتْ مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاٰی رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَی اللّٰهِ الْفِرْيَةَ، قَالَ وَكُنْتُ مُتَّكِئًا فَجَلَسْتُ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِيْنَ ! أَنْظِرِيْنِيْ وَلَا تَعْجَلِيْنِيْ أَلَمْ يَقُلِ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ : ﴿وَ لَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ﴾ [ التكوير : ۲۳] ﴿وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى﴾ [النجم:۱۳] فَقَالَتْ أَنَا أَوَّلُ هٰذِهِ الْأُمَّةِ سَأَلَ عَنْ ذٰلِكَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّمَا هُوَ جِبْرِيْلُ لَمْ أَرَهُ عَلٰی صُوْرَتِهِ الَّتِيْ خُلِقَ عَلَيْهَا غَيْرَ هَاتَيْنِ الْمَرَّتَيْنِ، رَأَيْتُهُ مُنْهَبِطًا مِنَ السَّمَاءِ سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَی الْأَرْضِ، فَقَالَتْ أَوَ لَمْ تَسْمَعْ أَنَّ اللّٰهَ يَقُوْلُ : ﴿لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ﴾ [ الأنعام : ۱۰۳] أَوَ لَمْ تَسْمَعْ أَنَّ اللَّهَ يَقُوْلُ : ﴿وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَآءُ اِنَّهٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ﴾ [ الشورٰي : ۵۱ ] )) [ مسلم، الإیمان، باب معنی قولہ : ﴿ولقد راٰہ نزلۃ أخری﴾ : ۱۷۷ ] ’’اے ابو عائشہ! تین باتیں ایسی ہیں کہ جو ان میں سے ایک بات بھی کہے اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔‘‘ میں نے کہا : ’’وہ کیا ہیں؟‘‘ انھوں نے فرمایا : ’’جو شخص یہ گمان کرے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔‘‘ مسروق کہتے ہیں، میں ٹیک لگائے ہوئے تھا، یہ سن کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور میں نے کہا : ’’ام المومنین! مجھے کچھ مہلت دیں، جلدی نہ کریں، کیا اللہ عز و جل نے یہ نہیں فرمایا : ﴿وَ لَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ﴾ [ التکویر : ۲۳ ] ’’اور بلاشبہ یقیناً اس نے اس کو ( آسمان کے) روشن کنارے پر دیکھا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى ﴾ ’’حالانکہ بلاشبہ یقیناً اس نے اسے ایک اور بار اترتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔‘‘ تو انھوں نے فرمایا : ’’اس امت میں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سب سے پہلے پوچھا وہ میں ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ تو جبریل علیہ السلام ہیں، میں نے انھیں ان کی اس صورت میں، جس میں انھیں پیدا کیا گیا ہے، ان دو مرتبہ کے سوا نہیں دیکھا۔ میں نے انھیں آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، ان کے عظیم وجود نے آسمان و زمین کے مابین کو پُر کر رکھا تھا۔‘‘ پھر ام المومنین رضی اللہ عنھا نے فرمایا : ’’کیا تم نے نہیں سنا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ﴾ [ الأنعام : ۱۰۳ ] ’’اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بین، سب خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ اور کیا تم نے سنا نہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَآءُ اِنَّهٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ ﴾ [ الشورٰی : ۵۱ ] ’’اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے، یا یہ کہ وہ کوئی رسول بھیجے، پھر اپنے حکم کے ساتھ وحی کرے جو چاہے، بے شک وہ بے حد بلند، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’ابنِ عباس رضی اللہ عنھما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دل سے دیکھنا مروی ہے، ایک روایت میں مطلق دیکھنے کا بھی ذکر ہے مگر اس سے مراد بھی دل سے دیکھنا ہی ہے اور جنھوں نے ان سے آنکھوں کے ساتھ دیکھنا روایت کیا ہے انھوں نے غریب بات کی ہے، کیونکہ اس (آنکھوں کے ساتھ دیکھنے) کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے کوئی چیز ثابت نہیں اور بغوی نے اپنی تفسیر میں جو فرمایا ہے کہ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو آنکھوں کے ساتھ دیکھا ہے اور یہ انس، حسن اور عکرمہ کا قول ہے، تو بغوی کی اس بات میں نظر ہے۔‘‘ (ابن کثیر) المختصر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھنا کسی صحابی سے صحیح سند کے ساتھ مروی نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے دل کے ساتھ دیکھنے کی جو بات کی ہے اگر ان آیات کے پیشِ نظر کی ہے تو وہ درست نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصریح کے خلاف ہے۔ ہاں، نیند کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صحیح سندوں کے ساتھ ثابت ہے اور یہ دیکھنا دل ہی کے ساتھ تھا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَا عَائِشَةُ! إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلاَ يَنَامُ قَلْبِيْ )) [ بخاري، صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان : ۲۰۱۳ ] ’’اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔‘‘ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حالتِ نیند میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے سے متعلق ایک حدیث درج کی جاتی ہے، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے ہمارے پاس آنے سے رکے رہے، یہاں تک کہ قریب تھا کہ ہم سورج کی ٹکیہ کو دیکھ لیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی کے ساتھ آئے، نماز کی اقامت کہی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور نماز میں اختصار فرمایا۔ جب سلام پھیرا تو ہمیں اونچی آواز کے ساتھ فرمایا : ’’اپنی اپنی صفوں میں بیٹھے رہو۔‘‘ پھر فرمایا : (( أَمَا إِنِّيْ سَأُحَدِّثُكُمْ مَا حَبَسَنِيْ عَنْكُمُ الْغَدَاةَ، إِنِّيْ قُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ فَتَوَضَّأْتُ وَصَلَّيْتُ مَا قُدِّرَ لِيْ فَنَعَسْتُ فِيْ صَلاَتِيْ حَتَّی اسْتَثْقَلْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَبِّيْ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰی فِيْ أَحْسَنِ صُوْرَةٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ! قُلْتُ لَبَّيْكَ رَبِّ! قَالَ فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلٰی؟ قُلْتُ لاَ أَدْرِيْ رَبِّ ! قَالَهَا ثَلاَثًا قَالَ فَرَأَيْتُهُ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ قَدْ وَ جَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَتَجَلّٰی لِيْ كُلُّ شَيْءٍ وَعَرَفْتُ )) [ ترمذي، التفسیر، سورۃ صٓ : ۳۲۳۵ ] ’’سنو! میں تمھیں بتاؤں گا کہ آج صبح مجھے تمھارے پاس آنے سے کس چیز نے روکے رکھا۔ آج رات میں اٹھا، وضو کیا اور جتنی میری قسمت میں نماز تھی وہ نماز میں نے پڑھی، پھر مجھے نماز میں اونگھ آ گئی، یہاں تک کہ میں بھاری ہو گیا۔ اچانک دیکھتا ہوں کہ میرا رب خوب صورت ترین شکل میں میرے سامنے ہے، تو اس نے فرمایا : ’’اے محمد!‘‘ میں نے کہا : ’’میں حاضر ہوںاے میرے رب!‘‘فرمایا : ’’ملأ اعلیٰ کس بات میں بحث کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا : ’’میں نہیں جانتا۔‘‘ تین دفعہ فرمایا۔ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا : ’’تو میں نے اسے (اپنے رب کو ) دیکھا کہ اس نے اپنی کف میرے کندھوں کے درمیان رکھی، تو میں نے اس کے پوروں کی ٹھنڈک اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان محسوس کی، تو میرے لیے (ملأ اعلیٰ کی بحث کے متعلق) ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے اسے جان لیا۔‘‘ آگے لمبی حدیث ہے، ترمذی نے فرمایا : ’’یہ حدیث حسن صحیح ہے اور میں نے محمد بن اسمٰعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا : ’’یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ امام ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے بھی معمولی فرق کے ساتھ یہ روایت بیان کی ہے اور شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مسند احمد (۱؍۲۸۵) میں ابنِ عباس رضی اللہ عنھما سے مروی حدیث ’’رَأَيْتُ رَبِّيْ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰي‘‘ (میں نے اپنے رب عز و جل کو دیکھا) اسی سند والی حدیث کا اختصار ہے، کیونکہ امام احمد نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے خواب میں دیکھنے کی مفصل حدیث بھی روایت کی ہے جو پیچھے ترمذی کے حوالے سے گزری ہے۔ صحیح بخاری میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا ذکر ہے : (( وَدَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّةِ فَتَدَلّٰی حَتّٰی كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰی فَأَوْحَی اللّٰهُ فِيْمَا أَوْحٰی إِلَيْهِ خَمْسِيْنَ صَلاَةً عَلٰی أُمَّتِكَ كُلَّ يَوْمٍ وَ لَيْلَةٍ )) [بخاري، التوحید، باب ما جاء في قولہ عزوجل : ﴿وکلم اللّٰہ موسٰی تکلیما ﴾ : ۷۵۱۷ ] ’’اور جبار رب العزت قریب آیا پھر اتر آیا، یہاں تک کہ اس سے دو کمانوں کے فاصلے پر ہو گیا یا اس سے بھی قریب۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو وحی فرمائی، اس میں آپ کی امت پر دن رات میں پچاس نمازوں کی وحی فرمائی۔‘‘ یہ لمبی حدیث ہے، اس حدیث کے شروع اور آخر میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ معاملہ نیند کا تھا اور نیند میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں کوئی اختلاف نہیں۔ رہی یہ بات کہ کیا معراج متعدد بار ہوا ہے، تو اہلِ علم نے فرمایا کہ بیداری کی حالت میں معراج ایک ہی دفعہ ہوا ہے، اس سے پہلے تمہید کے طور پر پہلے خواب میں آپ کو یہ سب کچھ دکھایا گیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ابنِ کثیر میں تفسیر سورۂ بنی اسرائیل اور فتح الباری میں شرح حدیث مذکور۔ تفسیر ہذا میں سورۂ انعام کی آیت (۱۰۳) کی تفسیر پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔