إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ
بےشک آسمان کی پیدائش اور رات دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لئے نشان ہیں (ف ١)
1۔ اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:اس آیت سے آخر سورت تک آیات کی بڑی فضیلت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو ان آیات کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ [ بخاری، التفسیر، باب :﴿ربنا إنک من تدخل النار﴾ : ۴۵۷۰، ۴۵۷۱، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما ] 2۔ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ: ”الْاَلْبَابِ“یہ’’لُبٌّ ‘‘ کی جمع ہے، جس کا معنی خالص عقل ہے، اس لیے ترجمہ ’’ عقلوں والوں‘‘ کیا ہے۔ یعنی جو لوگ زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں، انھیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرماں روا کی پہچان ہو جاتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی طویل و عریض کائنات کا یہ لگا بندھا نظام، جس میں ذرا خلل واقع نہیں ہوتا، یقینا اس کے پیچھے ایک ذات ہے جو اسے چلا رہی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات۔ اس میں عقلوں والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اکیلے مالک ہونے کی، اللہ تعالیٰ کی حکمت اور کاریگری کی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حاکمیت کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ نظام فلکی اور اس کی تفصیلات، چاند سورج، ستاروں کی تعداد، ان کے درمیانی فاصلے، ان کے باہمی تعلقات و تاثرات، ان کی گردشوں کی پیمائش، گرہن کے اسباب و اوقات، ان کے طلوع و غروب اور نور و حرارت وغیرہ کے قاعدے و ضابطے، غرض اس قسم کی تفصیلات سے علم ہیئت کی کتابوں کے دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔ رہی زمین تو اس کی شکل و صورت، اس کی پیمائش، اس کے پہاڑ اور سمندر، اس کی معدنیات، اس کی کشش، اس کی ہوا ؤ ں اور موسموں کے تغیرات وغیرہ کے لیے تو کوئی ایک فن بھی پوری طرح کافی نہ ہوا، بلکہ جغرافیہ، جغرافیہ طبعی، جیالوجی، فزیالوجی، میٹرالوجی اور آرکیالوجی، اللہ جانے کتنے فنون پر فنون نکلتے چلے آ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی کاریگر ی کے اندازے اور تخمینے ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔ اب ”اُوْلُوْا الْاَلْبَابِ“ کے بجائے غیر مسلم قومیں ان چیزوں پر غور میں مصروف ہیں اور چونکہ ان کا ہدف ہی دنیا ہے، اس لیے دنیا کے بے شمار فائدے حاصل کر رہے ہیں، بلکہ انھی فنون کے ذریعے سے انھوں نے مسلمانوں کو مغلوب کر رکھا ہے، ہدف کی غلطی کی وجہ سے انھیں ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کو سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ کاش! مسلمان ان فنون میں پوری طرح حصہ لیتے تو یہ سارے علوم دین کی سربلندی اور توحید کی دعوت کا زبردست ذریعہ بنتے اور دنیا پر غلبے کے کام آتے، کیونکہ مسلمان تو ﴿رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴾ کا ہدف سامنے رکھتا ہے۔