وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ
اور جب خدا نے اہل کتاب سے عہد لیا تھا کہ تم اس کتاب کا بیان لوگوں سے کرو گے اور اسے نہ چھپاؤ اور انہوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے مقابلہ میں حقیر قیمت خریدی سو انہوں نے کیسی بری شے خرید کی (ف ١)
یعنی اہل کتاب سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ ان کی کتابوں میں جو احکام دیے گئے ہیں اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جو بشارتیں اور علامتیں بیان کی گئی ہیں، ان کا اعلانیہ اظہار کریں گے اور ان کو چھپانے کے جرم کا ارتکاب نہیں کریں گے، مگر انھوں نے دنیا طلبی میں پڑ کر اس عہد کی کوئی پروا نہ کی اور ان احکام کی بھی لفظی اور معنوی تحریف کی اور ان بشارتوں اور علامتوں کو چھپایا، ﴿فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُوْنَ﴾ ’’سو برا ہے جو وہ خرید رہے ہیں۔‘‘ اس آیت میں ضمناً مسلمان علماء کو بھی یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ حق بات کو جانتے بوجھتے ہوئے چھپانے کے جرم کا ارتکاب نہ کریں۔ حدیث میں متعدد سندوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے: (( مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ اُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ )) [ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : ۲۶۴۹، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔‘‘