سورة الطور - آیت 6

وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ابلتے دریا کی

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ الْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ: ’’سَجَرَ يَسْجُرُ‘‘ (ن) کئی معنوں میں آتا ہے۔ ’’سَجَرَ التَّنُّوْرَ‘‘ ’’اس نے تنور ایندھن سے بھر کر بھڑکا دیا۔‘‘ ’’سَجَرَ الْمَاءُ النَّهْرَ‘‘ ’’پانی نے نہر کو بھر دیا۔‘‘ ’’سَجَرَ الْكَلْبَ (شَدَّهُ بِالسَّاجُوْرِ)‘‘ ’’اس نے کتے کو پٹے کے ساتھ باندھ دیا۔‘‘ اس آیت میں زمین کی سطح پر پائی جانے والی سب سے عظیم مخلوق سمندر کی قسم کھا کر اسے قیامت کے دن عذاب دینے پر قادر ہونے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ لفظ ’’ الْمَسْجُوْرِ ‘‘ لغت کے لحاظ سے جن کیفیتوں کا اظہار کرتا ہے وہ تینوں یہاں مراد لی جا سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ لبالب بھرا ہوا ہے، مدتیں گزرنے کے باوجود اس کی لبریزی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ قتادہ نے فرمایا : ’’ اَلْمُمْتَلِيْ‘‘ [ طبري : ۳۲۵۹۴، بسند صحیح ] ’’بھرا ہوا۔‘‘ پھر وہ ساکن نہیں بلکہ اس میں ہر وقت ابلنے اور جوش مارنے کی سی کیفیت جاری رہتی ہے۔ مجاہد نے فرمایا : ’’اَلْمُوْقَدُ ‘‘ [ طبري : ۳۲۵۹۲، بسند حسن ] ’’بھڑکایا ہوا۔ ‘‘ مزید دیکھیے سورۂ تکویر کی آیت (۶) : ﴿وَ اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ﴾ کی تفسیر۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے خشکی پر چڑھ دوڑنے سے باندھ کر رکھا ہوا ہے۔ اگر کبھی اسے طوفان کی صورت میں نکلنے کی تھوڑی سی اجازت ملتی ہے تو شہروں کے شہر صفحۂ ہستی سے ناپید ہو جاتے ہیں۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل کیا ہے : (( ’’ الْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ ‘‘ اَلْمَحْبُوْسُ )) [ طبري : ۳۲۵۹۶ ]