وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور جنہیں خدا نے کچھ اپنے فضل سے دیا ہے اور وہ اس میں بخل کرتے ہیں وہ قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا (ف ١) اور زمین وآسمان کی میراث اللہ کی ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے ۔ (ف ٢)
1۔ وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ:اوپر ترغیب جہاد کے سلسلے میں جانی قربانی پر زور دیا ہے اور جو جان بچانے کی خاطر اس سے فرار اختیار کرتے ہیں ان کے حق میں وعید سنائی ہے۔ اب یہاں جہاد میں مالی قربانی پر زور دیا جا رہا ہے اور بخل کرنے والوں کی مذمت کی جا رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح ان منافقین کو اپنی جان پیاری ہے اسی طرح ان کو اپنا مال بھی پیارا ہے اور جو لوگ مال کے حقوق ادا کرنے سے پہلوتہی کرتے ہیں، قیامت کے دن یہی مال ان کے لیے وبال جان بن جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کچھ مال دیا ہے اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، قیامت کے دن اس کے مال کو ایک گنجے سانپ کی شکل دے دی جائے گی اور وہ طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ وہ اسے اس کی دونوں باچھوں سے پکڑے گا اور اس سے کہے گا : ’’میں ہوں تمھارا مال، میں ہوں تمھارا خزانہ۔‘‘ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ [ بخاری، التفسیر، باب :﴿ولایحسبن الذین یبخلون…﴾ : ۴۵۶۵، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] 2۔ بخل ان حقوق کو ادا نہ کرنے کا نام ہے جو انسان پر واجب ہوں، مثلاً گھر والوں کا نان و نفقہ، مہمان نوازی، جہاد کی تیاری، زکوٰۃ و عشر وغیرہ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (( وَ اَيُّ دَائٍ اَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ )) ’’بخل سے بڑی بیماری کیا ہو سکتی ہے؟‘‘ [ بخاری، المغازی، باب قصۃ عمان والبحرین : ۴۳۸۳ ] 3۔ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ: یعنی جب زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی میراث اور ملکیت ہے تو جس مال کے بظاہر تم وارث بنائے گئے ہو، اس میں بخل کیوں کرتے ہو ؟ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اللہ وارث ہے، آخر تم مر جا ؤ گے اور مال اسی کا ہو رہے گا، تم اپنے ہاتھ سے دو تو ثواب پا ؤ ۔‘‘ (موضح)