سورة محمد - آیت 25

إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَىٰ لَهُمْ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

بے شک جو لوگ بعد اس کے کہ ان پر ہدایت کھل چکی اپنی پیٹھوں پر الٹے پھرگئے (یعنی مرتد ہوگئے) شیطان نے ان کے دل میں بات بنائی اور انہیں دیر کے وعدے دیئے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ الَّذِيْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰى اَدْبَارِهِمْ ....: ان سے مراد منافقین ہی ہیں جنھوں نے راہِ حق واضح ہونے اور اسلام کا اقرار کرنے کے بعد جہاد سے گریز کرتے ہوئے کفر و ارتداد کی راہ اختیار کی۔ الشَّيْطٰنُ سَوَّلَ لَهُمْ وَ اَمْلٰى لَهُمْ: یعنی شیطان نے ان کے لیے ان کے کفر و ارتداد اور جہاد سے فرار کو خوش نما بنا دیا اور ان کے لیے مہلت لمبی بتائی، یعنی ان کے دلوں میں ڈال دیا کہ اگر جہاد نہ کرو گے تو لمبی مدت تک زندہ رہو گے اور دنیا کے عیش و آرام سے فائدہ اٹھاؤ گے۔ شیطان کا کام ہی خواہش اور آرزوئیں دلا کر گمراہ کرنا ہے۔ (دیکھیے نساء : ۱۱۹، ۱۲۰) حالانکہ انھیں سمجھنا چاہیے تھا کہ موت اپنے وقت پر آتی ہے، اس میں لمحہ بھر تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی، پھر جہاد سے بھاگنے کا کیا فائدہ؟