قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ
بولے اے ہماری قوم ہم نے ایک کتاب سنی جو موسیٰ کے بعدنززل ہوئی ہے ۔ اگلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے (اور) دین حق اور راہ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے
1۔ قَالُوْا يٰقَوْمَنَا اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى: جنوں نے نازل کردہ کتابوں میں سے آخری کتاب انجیل کا نام لینے کے بجائے تورات کا نام لیا۔ بعض مفسرین کے مطابق اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ یہود کے دین پر تھے، یا انھیں انجیل کے نزول کا علم نہیں تھا، مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن سے پہلے آخری کتاب جو شریعت کے احکام پر مشتمل تھی وہ تورات تھی۔ داؤد علیہ السلام کی زبور اور عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل اس کی تکمیل یا تفسیر و تبیین کرنے والی کتابیں تھیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے تمام انبیاء حتیٰ کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی تورات ہی پر عمل کے پابند تھے۔ (دیکھیے مائدہ : ۴۴) اسی سورۂ احقاف میں بھی قرآن سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کا ذکر ہے، فرمایا: ﴿ وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰى اِمَامًا وَّ رَحْمَةً﴾ [الأحقاف : ۱۲ ] ’’اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب پیشوا اور رحمت تھی۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں پہلی وحی کے نزول پر جب ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا معاملہ سن کر کہا تھا : (( هٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِيْ أُنْزِلَ عَلٰی مُوْسٰی)) [ بخاري، التعبیر، باب أوّل ما بدء بہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ....: ۶۹۸۲ ] ’’یہ وہی صاحب راز فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا گیا۔‘‘ حالانکہ ورقہ بن نوفل اس سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام کا دین قبول کر چکے تھے اور انجیل کے عالم تھے۔ 2۔ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ: یعنی یہ کتاب اس سے پہلی تمام آسمانی کتابوں کو سچا ثابت کرنے والی ہے کہ اس کتاب کے ذریعے سے وہ تمام باتیں اور پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئیں جو ان کتابوں میں کی گئی ہیں، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیش گوئی بھی شامل ہے۔ 3۔ يَهْدِيْ اِلَى الْحَقِّ وَ اِلٰى طَرِيْقٍ مُّسْتَقِيْمٍ: ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’یعنی عقائد و اخبار میں حق اور اعمال میں سیدھے راستے کی طرف راہ نمائی کرتی ہے، کیونکہ قرآن خبر اور طلب دو چیزوں پر مشتمل ہے۔ اس کی خبر صدق اور طلب عدل ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًا ﴾ [ الأنعام : ۱۱۵ ] ’’اور تیرے رب کی کتاب صدق اور عدل کے اعتبار سے پوری ہو گئی۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿هُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ ﴾ [ التوبۃ : ۳۳ ] ’’وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا۔‘‘ چنانچہ ہدایت علم نافع ہے اور دینِ حق عمل صالح ہے اور جنوں نے بھی یہی بات کہی کہ ’’ يَهْدِيْ اِلَى الْحَقِّ ‘‘ (اعتقادات میں حق کی راہنمائی کرتی ہے) ’’ وَ اِلٰى طَرِيْقٍ مُّسْتَقِيْمٍ ‘‘ (اور عملیات میں سیدھے راستے کی)۔‘‘