سورة الأحقاف - آیت 3

مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنذِرُوا مُعْرِضُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ہم نے جو آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو پیدا کیا ہے تو ایک ٹھیک کام کے لئے اور ایک وقت مقررہ تک کے لئے پیدا کیا ہے اور جو کافر ہیں وہ جس چیز سے ڈرائے جاتے ہیں منہ موڑ لیتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا اِلَّا بِالْحَقِّ: قرآن مجید کے بنیادی مضامین میں سب سے اہم مضمون توحید اور آخرت ہیں۔ ان دونوں کو دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کے لیے ’’ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ ‘‘ کو بطور تمہید ذکر فرمایا۔ اس کے بعد ایک متفق علیہ بات کا ذکر فرمایا کہ یہ سب مانتے ہیں کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ تسلیم کر لینے کے بعد اس کائنات کے متعلق کوئی بھی بات اسی کی معتبر ہو گی جس نے اسے بنایا ہے۔ چنانچہ اس کا فرمان ہے کہ ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو حق ہی کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ ان میں سے کوئی چیز باطل نہیں کہ اس میں کوئی خامی یا غلطی ہو یا وہ بے مقصد ہو یا محض کھیل کے لیے بنائی گئی ہو، بلکہ ان کے پیدا کرنے میں بہت سی حکمتیں ہیں۔ قرآن مجید نے آسمان و زمین کی پیدائش میں ملحوظ بہت سی حکمتیں بیان فرمائی ہیں، جن میں سب سے بڑی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر دلالت ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ (163) اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِيْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَا اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ وَّ تَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۶۳، ۱۶۴ ] ’’اور تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔ بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں وہ چیزیں لے کر چلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیا اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کیا ہوا ہے، ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔‘‘ یعنی یہ حقیقت کہ معبود برحق اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے، عقل والوں کو زمین و آسمان کی پیدائش اور ان دونوں میں پائی جانے والی مذکورہ اشیاء پر غور کرنے سے معلوم ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید نے یہ حقیقت بار بار دہرائی ہے کہ عبادت کا حق دار ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس بات پر ہوتا ہے کہ پیدا کرنے والا کون ہے؟ جو پیدا کرنے والا ہے سچا معبود وہی ہے، جو کچھ پیدا ہی نہیں کر سکتا وہ معبود بھی نہیں ہو سکتا۔ خالق ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے اکیلے مستحق عبادت ہونے کی متعدد آیات میں سے چند آیات ملاحظہ فرمائیں، سورۂ بقرہ (۲۱، ۲۲)، اعراف (۱۹۱)، ہود (۷)، رعد (۱۶)، سورۂ نحل (۳ تا ۲۰) (ان آیات میں ’’خلق‘‘ کے بار بار دہرانے کو ملحوظ رکھیں)، سورۂ حج (۷۳)، فرقان (۲، ۳) اور سورۂ اعلیٰ (۱، ۲)۔ زمین و آسمان کی پیدائش میں ایک حکمت ان کی اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی قدرت کے کمال پر دلالت ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ وَّ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴾ [ الطلاق : ۱۲ ] ’’اللہ ہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند ۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ اللہ نے یقیناً ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے۔‘‘سورۂ طلاق کی اس آیت میں ’’ لِتَعْلَمُوْا ‘‘ (تاکہ تم جان لو) کا ’’لام‘‘ ’’خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ‘‘کے متعلق ہے۔ آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا کرنے میں ایک حکمت مخلوق کی آزمائش ہے کہ ان میں سے عمل کے لحاظ سے بہتر کون ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ [ ھود : ۷ ] ’’اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔‘‘ یہی بات سورۂ کہف (۷) اور سورۂ ملک (۲،۳) میں فرمائی۔ اسی کی وضاحت سورۂ ذاریات میں فرمائی: ﴿ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (56) مَا اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَا اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ﴾ [الذاریات : ۵۶،۵۷ ] ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔ نہ میں ان سے کوئی رزق چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔‘‘ حق کے ساتھ پیدا کرنے میں ایک حکمت ان کی اس بات پر دلالت ہے کہ ہر شخص کو اس کے عمل کی جزا ملے گی، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَسَآءُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ يَجْزِيَ الَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا بِالْحُسْنٰى﴾ [ النجم : ۳۱ ] ’’اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے، تاکہ وہ ان لوگوں کو جنھوں نے برائی کی اس کا بدلا دے جو انھوں نے کیا اور ان لوگوں کو جنھوں نے بھلائی کی بھلائی کے ساتھ بدلا دے۔‘‘ اس کی وضاحت سورۂ یونس کی آیت (۴) سے بھی ہوتی ہے۔ کفار چونکہ سمجھتے تھے کہ آسمان و زمین کی پیدائش کا کوئی مقصد نہیں، نہ اللہ کی طرف سے ان پر کوئی ذمہ داری عائد ہوئی ہے، نہ حساب ہو گا اور نہ جزا و سزا کا کوئی معاملہ ہے۔ ان کے مطابق تو زمین و آسمان کا یہ سب سلسلہ باطل اور بے مقصد ہوا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے کفار کی اس بات کی سخت تردید فرمائی، فرمایا: ﴿وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ ﴾ [ صٓ : ۲۷ ] ’’اور ہم نے آسمان و زمین کو اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کو بے کارپیدا نہیں کیا۔ یہ ان لوگوں کا گمان ہے جنھوں نے کفر کیا، سو ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا آگ کی صورت میں بڑی ہلاکت ہے ۔‘‘ یہی بات سورۂ مومنون (۱۱۵، ۱۱۶)، آل عمران (۱۹۰، ۱۹۱) اور سورۂ دخان (۳۸، ۳۹) میں بیان ہوئی ہے۔ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّى: یعنی ہم نے کائنات کا یہ نظام دائمی اور ابدی نہیں بنایا، بلکہ اس کا ایک وقت مقرر ہے، جس کے بعد ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلا ملے گا۔ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَمَّا اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ: ’’انذار‘‘ کا معنی آگاہ کرنا ہے جس کے ساتھ ڈرانا بھی ہو۔ یعنی اگرچہ کفار کو آگاہ کر دیا گیا کہ زمین و آسمان کی پیدائش بے مقصد نہیں، نہ یہ سلسلہ دائمی ہے بلکہ یہ تمھاری آزمائش کے لیے ہے اور ایک مقرر وقت پر تم سب اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاؤ گے، اس کے باوجود جس آخرت اور جس اخروی عذاب سے انھیں ڈرایا گیا وہ اس سے منہ پھیرنے والے ہیں، نہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور نہ اس سے بچنے کی تیاری کرتے ہیں۔