وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اور آسمانوں اور زمین میں اسی کو بڑائی ہے اور وہی غالب حکمت والاہے
1۔ وَ لَهُ الْكِبْرِيَآءُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: یہ جملہ لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے بندوں کو اپنی حمد کی تلقین و تاکید انھی کے فائدے کے لیے کی ہے، ورنہ وہ خود نہ ان کی تعریف کا محتاج ہے، نہ اسے اس کی ضرورت ہے اور نہ ان کی تعریف سے اس کی شان میں کوئی اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ پہلے سے اور ہمیشہ سے ساری بڑائی اور عظمت کا اکیلا مالک ہے، کوئی اور اس کی بڑائی میں کیا اضافہ کرے گا۔ 2۔ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ: یہ دو صفات اس بات کی دلیل کے طور پر ذکر فرمائیں کہ وہ اکیلا ہر کبریائی اور عظمت کا مالک ہے، کیونکہ وہی عزیز ہے اور وہی حکیم ہے (خبرپر الف لام سے حصر کا معنی پیدا ہو رہا ہے)، دوسرا کوئی نہ عزیز ہے نہ حکیم، تو اس میں کبریائی کیا ہو گی؟ ’’ الْعَزِيْزُ ‘‘ میں قدرت و اختیار کی ہر صورت آ جاتی ہے اور ’’ الْحَكِيْمُ ‘‘ میں علم کا ہر مفہوم آ جاتا ہے۔ وہ ’’ الْعَزِيْزُ ‘‘ (سب پر غالب) ہے، جو چاہے کر سکتا ہے، کوئی کام ایسا نہیں جو وہ نہ کر سکے اور کوئی ہستی ایسی نہیں جو اسے روک سکے اور وہ ’’ الْحَكِيْمُ ‘‘ (کمال حکمت والا) ہے، جو کرتا ہے عین حکمت اور بالکل درست ہوتا ہے، کوئی اس میں نہ غلطی نکال سکتا ہے نہ اس سے بہتر کی نشان دہی کر سکتا ہے۔