سورة الجاثية - آیت 26

قُلِ اللَّهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ اللہ تمہیں جلاتا ہے ، پھر تمہیں مارتا ہے ۔ پھر تمہیں قیامت کے دن جس میں شبہ نہیں جمع کریگا ۔ لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلِ اللّٰهُ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ: یہ ان کی مزعومہ حجت کا جواب ہے کہ تم اپنے اختیار سے اتفاقاً پیدا نہیں ہو گئے، نہ تمھاری موت تمھارے اختیار سے یا اتفاقاً واقع ہوتی ہے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ ہے جو تمھیں زندگی بخشتا ہے اور تمھیں موت دیتا ہے۔ پھر جب چاہے گا دوبارہ زندہ کر دے گا، اس میں تمھارا کوئی اختیار یا عمل دخل نہیں ہو گا۔ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ....: یعنی تمھیں الگ الگ زندہ نہیں کرے گا کہ کچھ لوگوں کو ایک وقت زندہ کیا، دوسروں کو کسی اور وقت اور باقی کو کسی تیسرے وقت، بلکہ سب اگلے پچھلوں کو قیامت کے دن تک لے جا کر ایک ہی وقت میں جمع کر دے گا۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۸)۔ لَا رَيْبَ فِيْهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ: یعنی قیامت واقع ہونے میں تو کوئی شک نہیں، مگر اکثر لوگ اس کا انکار اس لیے کرتے ہیں کہ وہ جاہل ہیں۔ وہ حقیقت کو نہ جانتے ہیں نہ جاننا چاہتے ہیں اور اپنی خواہش کے خلاف نہ کسی کی بات سنتے ہیں نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ قَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ﴾ [ الملک : ۱۰ ] ’’ اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے ہوتے، یا سمجھتے ہوتے تو بھڑکتی ہوئی آگ والوں میں نہ ہوتے۔‘‘