أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
وہ جنہوں نے برائیاں کمائی ہیں کیا ایسے سمجھتے ہیں ۔ کہ ہم انہیں ان کے برابر کردیں گے ۔ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ۔ ان سب کا مرنا جینا ایک سا ہوگا بڑے دعویٰ(ف 1) ہیں جو وہ کرتے ہیں
1۔ اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ ....: توحید کی دعوت کے بعد یہاں سے آخرت پر کلام شروع ہو رہا ہے اور یہ آیت آخرت کے حق ہونے کی دلیل ہے۔ تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ ص (۲۸) اور سورۂ قلم (۳۴ تا ۳۸)۔ 2۔ سَوَآءً مَّحْيَاهُمْ وَ مَمَاتُهُمْ....: یعنی کفار زندگی میں اپنی مرضی کرتے رہے اور بے لگام ہو کر اپنی خواہشات پوری کرتے رہے، جس کے نتیجے میں انھوں نے زمین میں فساد برپا رکھا اور لوگوں پر اور اپنی جانوں پر بے حساب ظلم کرتے رہے، جب کہ مومن اپنی خواہشات کو روک کر رب تعالیٰ کے احکام کے پابند رہے۔ اب اگر مرنے کے بعد بھی کفار کو ان کے جرائم کی سزا اور ایمان والوں کو ان کے اعمال صالحہ کی جزا نہ ملے تو یہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ عدل اور صفتِ حکمت دونوں کے خلاف ہے۔ جو لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ ایمان و کفر، نیکی و بدی اور ظلم و عدل کو برابر قرار دے رہے ہیں جو ان کا بہت برا فیصلہ ہے۔