إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّلْمُؤْمِنِينَ
بے شک آسمانوں اور زمین میں مومنوں کے لئے نشانیاں ہیں
اِنَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ: سورۂ بقرہ (۱۶۴) میں ’’ اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ‘‘ فرمایا، جبکہ یہاں ’’ اِنَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ‘‘ فرمایا، تو یہ اس سے عام ہے، کیونکہ اس میں آسمان و زمین کی پیدائش بھی شامل ہے اور ان کی ذات بھی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں اور ان کے بعد مذکور چیزوں میں کس چیز کی نشانیاں ہیں؟ جواب یہ ہے کہ یہ بات معلوم تھی کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کی توحید کو اور قیامت کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، کچھ دہریے بھی تھے جو اللہ تعالیٰ کے وجود ہی کو نہیں مانتے تھے، جیسا کہ اسی سورت کی آیت (۲۴) میں آ رہا ہے: ﴿ وَ قَالُوْا مَا هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَ نَحْيَا وَ مَا يُهْلِكُنَا اِلَّا الدَّهْرُ ﴾ ’’اور انھوں نے کہا ہماری اس دنیا کی زندگی کے سوا کوئی(زندگی) نہیں، ہم (یہیں) مرتے اورجیتے ہیں اور ہمیں زمانے کے سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا۔‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود، اپنی توحید اور قیامت پر دلالت کرنے والی بہت سی نشانیوں کا ذکر فرمایا۔ جن میں سب سے پہلے آسمان و زمین کا ذکر فرمایا کہ ان کے وجود میں ایمان والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں، کیونکہ نشانیوں کا فائدہ انھی کو ہوتا ہے جو ماننے کے لیے تیار ہوں، غفلت میں پڑے ہوئے لوگ اور ہٹ دھرم لوگ، جنھوں نے طے کر رکھا ہے کہ ماننا ہی نہیں ان کے لیے ان نشانیوں کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ رہی یہ بات کہ آسمان و زمین میں اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور قیامت کی نشانیاں کس طرح ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کائنات اور اس کا نظام شاہد ہے کہ یہ سب کچھ خود بخود نہیں بن گیا، بلکہ اسے کسی بنانے والے نے بنایا ہے اور وہ ایک ہی ہے، کیونکہ اس میں الگ الگ خداؤں کی خدائی چلنے کی گنجائش ہی نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَوْ كَانَ فِيْهِمَا اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا ﴾ [ الأنبیاء : ۲۲ ] ’’اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔‘‘ اس آیت کی تفسیر پر نظر ڈال لیں۔ آسمان و زمین کا وجود اس بات کی بھی شہادت دے رہا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے بے مقصد پیدا نہیں کیا، بلکہ اس نے یہ سب کچھ انسان کے فائدے کے لیے پیدا کیا ہے اور قیامت کے دن ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا دی جائے گی، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: ﴿ اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ (190) الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ [ آل عمران : ۱۹۰، ۱۹۱ ] ’’بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں عقلوں والوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔ وہ لوگ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں، اے ہمارے رب! تو نے یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے، سو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘ اور جیسا کہ اسی سورت میں آگے آ رہا ہے: ﴿ وَ خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَ لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ﴾ [ الجاثیۃ :۲۲] ’’اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلا دیا جائے جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘