فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے کچھ باتیں سکھیں ، تب وہ (خدا) اس پر متوجہ ہوا ۔ برحق وہی معاف کرنے والا (پھر آنے والا) مہربان ہے ۔
1۔ کلمات یہ تھے : ﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ﴾ [ الأعراف : ۲۳ ] مستدرک حاکم (۲؍۶۷۲، ح : ۴۲۲۸) میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے عرش پر ’’ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘‘ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگی تو ان کی توبہ قبول ہوئی، مگر ذہبی نے اسے موضوع یعنی من گھڑت کہا ہے۔ اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق خود امام حاکم نے ’’ المدخل إلي الصحيح ‘‘ میں فرمایا کہ وہ اپنے باپ سے موضوع روایات بیان کرتا ہے، جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی گھڑی ہوئی ہیں ، یہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے۔ قرآن و حدیث میں بہت سی دعائیں آئی ہیں ، سب میں براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگنا سکھایا گیا ہے، کسی نبی یا ولی کا واسطہ و وسیلہ نہیں بتایا گیا۔ مزید دیکھیے سورۂ مائدہ(۳۵) اور بنی اسرائیل (۵۷)۔ 2۔فَتَابَ عَلَيْهِ: خالص توبہ کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں ، اپنے گناہ کے نقصان کا احساس، اس پر ندامت اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم۔ ”فَتَابَ عَلَيْهِ“ سے معلوم ہوا کہ گناہ کے اثرات لازمی اور طبعی نہیں کہ لا محالہ ان کے نتیجے میں سزا ہی مل کر رہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، چاہے تو گناہ کی سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے، انسان توبہ کر لے تو گناہ کا اثر ختم کر دیا جاتا ہے۔ 3۔ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ: اس سے بڑھ کر کیا مہربانی ہو گی کہ خود دعا سکھائی اور پھر قبول بھی فرمائی۔