م
حٰم
1۔ حٰمٓ (1) وَ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ (2) اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ: اللہ تعالیٰ نے اس کتابِ مبین کی قسم کھا کر فرمایا کہ یقیناً ہم نے ہی اسے نازل فرمایا ہے۔ یعنی یہ کتابِ مبین خود اس بات کی شاہد ہے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور کی تصنیف نہیں، بلکہ اسے ہم نے ہی نازل کیا ہے۔ اگر کوئی اسے مخلوق کی تصنیف کہتا ہے تو وہ اس کی ایک سورت کی مثل ہی تصنیف کرکے لے آئے۔ 2۔ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ: کتاب کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ رات بڑی خیر و برکت والی ہے جس میں ہم نے اسے نازل فرمایا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرما دیا کہ وہ مبارک رات لیلۃ القدر ہے، جیسا کہ سورۂ قدر میں ہے: ﴿ اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ [القدر : ۱ ] ’’بلاشبہ ہم نے اسے قدر کی رات میں اتارا۔‘‘ اور وہ ماہِ رمضان میں ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ﴾ [ البقرۃ : ۱۸۵ ] ’’ رمضان کا مہینا وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔‘‘ کتاب اتارنے سے مراد اتارنے کی ابتدا ہے جو غارِ حرا میں ماہ رمضان کی اس مبارک رات میں ہوئی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ رات نصف شعبان کی رات ہے، مگر یہ بات سراسر غلط ہے، کیونکہ یہ قرآن مجید کے صریح خلاف ہے۔ قاضی ابوبکر بن العربی نے ’’احکام القرآن‘‘ میں لکھا ہے کہ نصف شعبان کی رات سے متعلق کوئی روایت قابل اعتماد نہیں، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس بارے میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ مفسر شنقیطی نے فرمایا : ’’ابن العربی کے علاوہ دوسرے محققین کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ ایسی روایات کی کوئی بنیاد نہیں، نہ ان میں سے کسی کی سند صحیح ہے۔‘‘ 3۔ ’’ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ ‘‘ کی برکات کی تفصیل سورۂ قدر میں ملاحظہ فرمائیں۔ 4۔ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِيْنَ: یعنی ہم نے یہ کتاب اس لیے نازل کی کہ بندوں کو اچھے اور برے کاموں سے آگاہ کر دیا جائے اور نافرمانی کی صورت میں انھیں ان کے انجامِ بد سے ڈرا دیا جائے، تاکہ ان کے پاس یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمیں خبردار نہیں کیا گیا۔ یہاں صرف ڈرانے کا ذکر فرمایا بشارت کا نہیں، کیونکہ اکثر لوگوں کے حسبِ حال یہی ہوتا ہے۔ ویسے ڈرانے کے ضمن میں بشارت بھی ہوتی ہے، اس شخص کے لیے جو ڈر جائے۔