سورة الزخرف - آیت 23

وَكَذَٰلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اسی طرح ہم نے تجھ سے پہلے جو ڈرانے والا کسی بستی میں بھیجا ۔ وہاں کے آسودہ لوگوں نے یہی کہا ۔ کہ بےشک ہم نے باپ دادوں کو ایک دین پر پایا ۔ اور ہم انہیں کے نقش قدم پرچلتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ كَذٰلِكَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ قَرْيَةٍ....: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ اس سفاہت و حماقت میں یہی لوگ مبتلا نہیں، بلکہ ان سے پہلے لوگ بھی اپنے رسولوں کو یہی کہتے چلے آئے ہیں، اس لیے آپ ان کی باتوں پر صبر کریں۔ 2۔ مفسر کیلانی لکھتے ہیں : ’’اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تقلیدِ آباء کے سب سے زیادہ مؤید اور اس پر اصرار کرنے والے کھاتے پیتے یعنی آسودہ حال اور چودھری قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ رسول کی بات مان لیں تو انھیں اپنی اس چودھراہٹ کے منصب سے نیچے اتر کر عام لوگوں کی صف میں شامل ہونا اور رسول کا مطیع بن کر رہنا پڑتا ہے اور اس کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ رسول ان کے کسبِ معاش کے طریقوں پر بھی کئی طرح کی پابندیاں لگاتا ہے، مال و دولت کمانے پر بھی اور اس کے خرچ کرنے پر بھی۔ اگر وہ یہ پابندیاں قبول کر لیں تو ان کی آسودہ حالی ہی خطرے میں پڑ جاتی ہے، لہٰذا وہ اپنی عاقبت اس میں سمجھتے ہیں کہ تقلید آباء پر ڈٹ جائیں اور عوام کو اپنے ساتھ ملائے رکھیں۔‘‘ (تیسیر القرآن)