سورة الزخرف - آیت 4

وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور بےشک وہ ہمارے پاس اصل کتاب میں بلند مرتبہ حکمت بھرا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِنَّهٗ فِيْ اُمِّ الْكِتٰبِ: ’’ اُمِّ الْكِتٰبِ ‘‘ کا معنی ہے ’’ کتاب کا اصل۔‘‘ اکثر مفسرین نے اس سے مراد لوح محفوظ لیا ہے، جہاں سے تمام آسمانی کتابیں نازل ہوئی ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ (21) فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ﴾ [البروج : ۲۱، ۲۲ ] ’’بلکہ وہ ایک بڑی شان والا قرآن ہے۔ اس تختی میں ( لکھا ہوا) ہے جس کی حفاظت کی گئی ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ (77) فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ (78) لَّا يَمَسُّهٗ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (79) تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ﴾ [ الواقعۃ : ۷۷ تا ۸۰ ] ’’کہ بلاشبہ یہ یقیناً ایک باعزت پڑھی جانے والی چیز ہے ۔ ایک ایسی کتاب میں جو چھپا کر رکھی ہوئی ہے۔ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا مگر جو بہت پاک کیے ہوئے ہیں۔ تمام جہانوں کے رب کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔‘‘ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ’’ اُمِّ الْكِتٰبِ ‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم ہے جو ہر آسمانی کتاب کا اصل ہے۔ لوح محفوظ کا اصل بھی وہی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ﴾ [ النمل : ۶ ] ’’اور بلاشبہ یقیناً تجھے یہ قرآن ایک کمال حکمت والے، سب کچھ جاننے والے کے پاس سے عطا کیا جاتا ہے۔‘‘ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيْمٌ: ’’لَدَيْ‘‘ اور ’’عِنْدَ‘‘ دونوں کا معنی ’’کسی کے پاس‘‘ ہونا ہے، مگر ’’لَدَيْ‘‘ خاص قرب کے لیے ہے اور ’’عِنْدَ‘‘ عام کے لیے۔ چنانچہ ’’اَلْمَالُ عِنْدَ زَيْدٍ‘‘ (مال زید کے پاس ہے) اس مال کے لیے بھی آتا ہے جو اس کے پاس حاضر ہو اور اس مال کے لیے بھی جو اس کے خزانے میں ہو، جبکہ ’’اَلْمَالُ لَدَيْ زَيْدٍ‘‘ صرف اس مال کے لیے آتا ہے جو اس کے پاس حاضر ہو۔ (تفسیر ثنائی) ’’ لَعَلِيٌّ ‘‘ یعنی یہ قرآن ہمارے علم میں ( یا لوحِ محفوظ میں) ہمارے پاس یعنی ہمارے خاص قرب میں بہت بلند مرتبے والا ہے، ملاءِاعلیٰ میں اس کا بہت اونچا مقام ہے، تمام کتابوں اور تمام علوم سے برتر اور بلند ہے۔ ’’ حَكِيْمٌ ‘‘ یعنی کمال حکمت اور دانائی کی باتوں سے بھرا ہوا ہے، اس کی ہر بات دانائی پر مشتمل اور صحیح عقل کے عین مطابق ہے۔ ’’ حَكِيْمٌ ‘‘ کا معنی محکم بھی ہے، یعنی یہ قرآن ایسا مضبوط و محکم ہے کہ نہ اس میں کسی طرح باطل کی آمیزش ہو سکتی ہے نہ باطل اس کے مقابلے میں ٹھہر سکتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهٖ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۴۲ ] ’’اس کے پاس باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے، ایک کمال حکمت والے، تمام خوبیوں والے کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ ہود (۱) مراد اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قرآن کی قدر و منزلت ذہن نشین کروانا ہے، تاکہ کوئی شخص اسے معمولی سمجھ کر اس پر ایمان لانے اور اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم نہ رہے۔ اسی بلند مرتبے کا اظہار ’’ اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ ‘‘ اور ’’ بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے۔ دیکھیے سورۂ واقعہ (۷۷) اور سورۂ بروج (۲۱)۔