سورة الشورى - آیت 36

فَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سو جو تمہیں کچھ شئے ملی ہے سو حیات دنیا کی بہرہ مندی ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ ایمانداروں اور ان کے لئے جو اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں بہتر اور پائیدار ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَمَا اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا: ’’مَتَاعٌ‘‘ وہ چیز جس سے فائدہ اٹھایا جائے، برتنے کی چیز جو جلدی ختم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید اور قدرت و سلطنت کے دلائل مثلاً بندوں کے لیے بارش برسانے، انھیں حسبِ حکمت رزق عطا فرمانے، آسمان و زمین کو پیدا کرنے، ان میں بے شمار جانداروں کو پھیلانے، سمندروں میں پہاڑوں جیسے بلند جہازوں کے چلنے اور انھیں پیش آنے والے احوال ذکر کرنے کے بعد دنیا کی زندگی کے سازو سامان کے بے وقعت اور عارضی ہونے کا ذکر فرمایا، کیونکہ دنیا کی زیب و زینت ہی انسان کو دلائل پر غور و فکر کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ جب وہ اس کی حقیقت سے آگاہ ہو گا اور وہ اس کی نگاہ میں حقیر ہو گی تو اسے آخرت کی طرف توجہ کا موقع ملے گا اور وہ دلائل پر غور بھی کرے گا۔ 2۔ دنیا میں انسان کو جو چیز بھی دی گئی ہے، وہ خواہ کتنی زیادہ ہو یا کتنی قیمتی ہو، اس میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس پر انسان پھول جائے اور آخرت سے بے پروا ہو جائے، کیونکہ ایک تو وہ بہت تھوڑی مدت کے لیے اس کے استعمال میں آتی ہے، پھر وہ سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ یہاں سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ملکیت میں خواہ کتنی لمبی چوڑی جائداد یا دولت ہو عملاً اس کے استعمال میں اس کا معمولی سا حصہ ہی آتا ہے۔ اے انسان ! تیرے لیے اس لمبی چوڑی جائداد میں سے وہی ہے: (( مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ )) [ مسلم، الزھد و الرقائق، باب : ۲۹۵۸ ] ’’جو تو نے کھا لیا اور فنا کر دیا، یا جو پہن لیا اور پرانا کر دیا۔‘‘ ایسی ناپائیدار چیز کے پیچھے اپنی عمر عزیز وہ شخص کبھی برباد نہیں کر سکتا جو اس کی حقیقت سے آگاہ ہو۔ مزید دیکھیے سورۂ رعد (۲۶)۔ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَّ اَبْقٰى: جو دولت و نعمت اللہ کے پاس ہے وہ ہر لحاظ سے دنیا کے ساز و سامان سے بہتر بھی ہے اور پائیدار اور لازوال بھی۔ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ: یہاں سے ان لوگوں کی صفات بیان فرمائیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں آخرت میں ملنے والی نعمتوں کے حق دار ہوں گے۔ ان میں سب سے پہلی صفت ’’ اٰمَنُوْا ‘‘ ماضی کے صیغے کے ساتھ ہے اور ’’ يَتَوَكَّلُوْنَ ‘‘ مضارع کے صیغے کے ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ وہ خوب سوچ سمجھ کر ایمان لا چکے اور ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، اس کی تقدیر اور اس کے روز جزا پر پورا یقین آ چکا، اب ان کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے ہر کام میں ہمیشہ صرف اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں، کسی اور سے انھیں نہ نفع کی امید ہے نہ کسی نقصان کا خوف۔ ’’ يَتَوَكَّلُوْنَ ‘‘ مضارع کا صیغہ ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔