إِن يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَىٰ ظَهْرِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
اگر وہ چاہے تو ہوا بند کردے پس جہاز سمندر کی پشت پر کھڑے رہ جائیں بےشک اس میں ہر صابر شاکر کے لئے نشانیاں ہیں
1۔ اِنْ يَّشَاْ يُسْكِنِ الرِّيْحَ....: ’’ رَوَاكِدَ ‘‘ ’’رَكَدَ يَرْكُدُ رُكُوْدًا‘‘ (ن) سے اسم فاعل ’’رَاكِدَةٌ‘‘ کی جمع ہے۔ نزول قرآن کے وقت سمندر میں بادبانی کشتیاں اور جہاز چلتے تھے، جن کے چلنے نہ چلنے کا اور سست یا تیز رفتار سے چلنے کا دارو مدار ہوا پر ہوتا تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے سمندروں میں جہازوں کو چلانے والی ہواؤں کی تین حالتیں بیان فرمائی ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ہوا کو ساکن کر دے اور جہاز جہاں کھڑے ہیں وہیں کھڑے رہ جائیں، پھر اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو اس ہوا کو چلا دے ؟ 2۔ اَوْ يُوْبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُوْا: اس کا عطف ’’ يُسْكِنِ الرِّيْحَ ‘‘ پر ہے، گویا عبارت اس طرح ہے : ’’إِنْ يَّشَأْ يُسْكِنِ الرِّيْحَ أَوْ إِنْ يَّشَأْ يُوْبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُوْا ‘‘ یعنی ’’اگر وہ چاہے تو ہوا کو ساکن کر دے یا اگر وہ چاہے تو ان کے اعمالِ بد کی وجہ سے تند و تیز طوفانی ہوا کے ساتھ انھیں ہلاک کر دے۔‘‘ یہ ہوا کی دوسری حالت ہے، تفصیل کے ساتھ اس کا ذکر ایک اور آیت میں ہے، فرمایا : ﴿ حَتّٰى اِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَ جَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ وَّ فَرِحُوْا بِهَا جَآءَتْهَا رِيْحٌ عَاصِفٌ ﴾ [یونس:۲۲] ’’یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور وہ انھیں لے کر عمدہ ہوا کے ساتھ چل پڑتی ہیں اور وہ اس پر خوش ہوتے ہیں تو ان (کشتیوں) پر سخت تیز ہوا آجاتی ہے۔‘‘ 3۔ وَ يَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ: اس کا عطف بھی ’’ يُسْكِنِ الرِّيْحَ ‘‘ پر ہے : ’’ أَيْ وَ إِنْ يَّشَأْ يَعْفُ عَنْ كَثِيْرٍ فَلَا يُعَاقِبُهُمْ بِإِسْكَانِ الرِّيْحِ أَوْ بِإِرْسَالِهَا عَاصِفَةً‘‘یہ تیسری حالت ہے، یعنی اگر وہ چاہے تو بہت سے لوگوں سے درگزر کر دے، پھر نہ ہوا روک کر انھیں سزا دے اور نہ ہی تند و تیز طوفان کے ساتھ انھیں ہلاک کرے، بلکہ انھیں سلامتی کے ساتھ منزلِ مقصود پر پہنچا دے۔ ’’ يُسْكِنِ ‘‘، ’’ يُوْبِقْهُنَّ‘‘ اور ’’ يَعْفُ‘‘ تینوں ’’ اِنْ يَّشَاْ‘‘ شرط کی جزا ہونے کی وجہ سے مجزوم ہیں۔ 4۔ ان آیات میں جہاں مشرکین کے لیے اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل بیان ہوئے ہیں وہیں مادہ پرست کمیونسٹوں اور دہریوں کا رد بھی ہے، کیونکہ ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہوا نہ اپنی مرضی سے چلتی ہے اور نہ ٹھہرتی ہے، نہ اپنی مرضی سے بادِ موافق ہو کر چلتی ہے اور نہ ہی تند و تیز آندھی کی شکل اختیار کرتی ہے، بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے۔ اگر ہوا کا چلنا اس کا طبعی فعل ہوتا تو جس طرح آگ جلاتی ہے اور برف ٹھنڈی ہوتی ہے ہوا بھی یا ساکن رہتی اور کبھی نہ چلتی یا چلتی رہتی اور ہمیشہ تند و تیز آندھی کی صورت اختیار کیے رکھتی۔ معلوم ہوا کہ ہوا کا چلنا خود اس کا فعل نہیں بلکہ یہ اس مالک و مختار کے ہاتھ میں ہے جس نے اسے پیدا فرمایا ہے۔ 5۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ: یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اتنی واضح اور عظیم نشانیوں کے باوجود مشرک اور دہریے ان سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ جواب کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ لقمان کی آیت (۳۱) کی تفسیر۔ 6۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو گا کہ آج کل جہاز ہوا سے نہیں چلتے بلکہ انجنوں کی طاقت سے چلتے ہیں، پھر ہوا کے رکنے سے ان پر کیا اثر ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انجن بھی عقب میں ہوا کے ساتھ پانی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے جہازوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ’’الرِّيْحَ ‘‘ کا لفظ اس ریح کو بھی شامل ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان انجنوں میں ایسی خرابی پیدا کر دے کہ وہ ایک ہی جگہ کھڑے رہ جائیں۔ (تفسیر ثنائی بتصرف)