سورة الشورى - آیت 19

اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ اپنے بندوں پر نرمی کرتا ہے ۔ جسے چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور وہ قوی غالب ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَللّٰهُ لَطِيْفٌۢ بِعِبَادِهٖ: ’’ لَطِيْفٌ‘‘ ایسی چیز جوگرفت میں نہ آ سکے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’لطيف‘‘ اس لحاظ سے ہے کہ وہ باریک سے باریک چیز کی خبر رکھنے والا ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ اس کی تدبیر نہایت باریک ہوتی ہے جو نظر نہیں آتی۔ اس لحاظ سے اس کا معنی لطف و کرم کرنے والا بھی ہے کہ وہ ایسے باریک طریقے سے مہربانی فرماتا ہے کہ نظر ہی نہیں آتا کہ یہ کیسے ہو گئی۔ (مفردات) گویا ’’ لَطِيْفٌ‘‘ میں دو صفتیں جمع ہیں، ایک نہایت باریک بین اور دوسری نہایت مہربانی والا۔ ان کے ضمن میں کمال علم بھی ہے جس کے بغیر باریک بینی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بندوں پر لطیف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے ان کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی مادی یا روحانی ضرورت پوشیدہ نہیں اور وہ اپنی کمال مہربانی اور باریک طریقوں سے ایسے انتظام فرماتا ہے کہ ہر بندے کی بلکہ ہر مخلوق کی ضرورت جو اس کے حسبِ حال ہو، پوری ہو اور اسے خبر بھی نہ ہو کہ وہ کیسے پوری ہو گئی۔ بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ ’’ بِعِبَادِهٖ ‘‘ کا لفظ اگرچہ عام ہے مگر اس سے مراد یہاں اللہ کے مومن بندے ہیں اور بعض نے فرمایا کہ’’ بِعِبَادِهٖ ‘‘ میں مومن و کافر دونوں شامل ہیں، دنیا میں دونوں اس کے لطفِ عام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، البتہ آخرت میں اس کا لطف و کرم مومنوں کے لیے خاص ہو گا۔ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ: اسی لیے ان میں سے بے شمار لوگوں کو جھٹلانے اور مذاق اڑانے کے باوجود بھوکا نہیں مارتا، بلکہ ان کی تمام ضرورتیں اپنے لطف و کرم سے پوری کرتا ہے۔ مگر جسے چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور جس کی روزی کا دفتر بند کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے۔ یہ بات یہاں ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے کہ اکثر لوگ رزق کے پیچھے رزاق کو بھول جاتے ہیں۔ وَ هُوَ الْقَوِيُّ: یعنی وہ جو کرنا چاہے، جسے جتنا رزق دینا چاہے اس کی پوری قوت رکھتا ہے، کسی کام میں کسی کا محتاج نہیں۔ الْعَزِيْزُ: یعنی دوسرے تمام معاملات کی طرح رزق کے معاملے میں بھی کسی کا اس پر زور نہیں کہ وہ دینا چاہے تو کوئی اسے روک سکے، یا نہ دینا چاہے تو کوئی اس سے لے سکے۔ خبر ’’الْقَوِيُّ الْعَزِيْزُ‘‘ پر الف لام سے قصر پیدا ہو گیا ہے ، یعنی دونوں صفتیں صرف اس میں ہیں، کسی اور میں نہیں، جیساکہ فرمایا: (( اَللّٰهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ )) [بخاري، القدر، باب لا مانع لما أعطی اللّٰہ : ۶۶۱۵ ] ’’اے اللہ! تو جو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روک دے وہ کوئی دینے والا نہیں۔‘‘