وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاءُ اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ
اور جس دن اللہ کے دشمن آگ کی طرف اٹھائے جائین گے پھر ان کی مثلیں ہٹیں گی
1۔ وَ يَوْمَ يُحْشَرُ اَعْدَآءُ اللّٰهِ اِلَى النَّارِ: لفظ ’’ يَوْمَ ‘‘ ’’اُذْكُرْ‘‘ کا مفعول ہے جو یہاں مقدر ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ واؤ کا عطف کس پر ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس سے پہلے انبیاء کو جھٹلانے والے منکرین پر دنیا میں آنے والے عذابوں کا ذکر فرمایا تھا، اب آخرت میں ان کے ہونے والے حال کا ذکر فرمایا۔ چنانچہ آخرت کا حال یاد دلانے والے اس جملے کا عطف اس مقدر جملے پر ہے جس میں ان پر دنیا میں آنے والے عذاب یاد دلائے گئے ہیں۔ گویا اصل عبارت یہ تھی: ’’ اُذْكُرْ أَيَّامَ أَعْدَاءِ اللّٰهِ فِي الدُّنْيَا فِيْ إِنْزَالِ الْعَذَابِ لَهُمْ وَاذْكُرْ يَوْمَ يُحْشَرُوْنَ إِلَي النَّارِ۔‘‘ یعنی ’’انھیں اللہ کے دشمنوں پر دنیا میں آنے والے عذابوں کی یاد دہانی کروا اور انھیں وہ دن یاد دلا جب وہ آگ کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔‘‘ آیات کی ابتدا میں آنے والی واؤ عاطفہ کی مناسبت ہر جگہ’’ نَظْمُ الدُّرَرِ فِيْ تَنَاسُبِ الْآيَاتِ وَالسُّوَرِ ‘‘ کے مصنف نے نہایت عمدہ بیان فرمائی ہے۔ میں نے اختصار کے پیش نظر صرف چند ایک مقامات پر اس کا ذکر کیا ہے، اصحاب ذوق اصل کتاب سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 2۔ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ: ’’ وَزَعَ يَزَعُ ‘‘ کا اصل معنی روکنا، ترتیب دینا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے دشمنوں کو آگ کی طرف اکٹھا کرکے لے جایا جائے گا اور انھیں اس طرح اکٹھا کیا جائے گا کہ آگے والوں کو آگے جانے سے اور پیچھے والوں کو پیچھے جانے سے روک کر اکٹھا کر لیا جائے گا، پھر ان کی الگ الگ ترتیب لگائی جائے گی، ان کے جرائم کے مطابق ان کی ٹولیاں بنائی جائیں گی اور انھیں دھکیل کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ دیکھیے سورۂ حم السجدہ(۱۹) اور سورۂ صافات (۲۲ تا ۲۶)۔