أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ وَكَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ ۚ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابٍ
آسمانوں کے رستوں پر پھر میں موسیٰ کے خدا کو جھانک کر دیکھوں اور میں تو اسے جھوٹا (ف 1) خیال کرتا ہوں ۔ اور اسی فرعون کے برے عمل اس کے لئے آراستہ کئے گئے اور وہ راہ سے روکا گیا اور فرعون کا مکر صرف ہلاکت میں تھا
1۔ اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰى اِلٰهِ مُوْسٰى: فرعون نے پہلے صرف یہ کہا : ’’تاکہ میں اسباب تک پہنچ سکوں‘‘ مقصد تجسس پیدا کرنا تھا کہ وہ کس چیز کے اسباب تک پہنچنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس نے دوبارہ وضاحت کی، تاکہ میں آسمانوں کے راستوں اور دروازوں تک پہنچ جاؤں، جہاں سے آسمانوں تک رسائی ہوتی ہے، پھر موسیٰ کے معبود کی طرف جھانکوں، جو اس کے کہنے کے مطابق آسمانوں کے اوپر ہے۔ 2۔ وَ اِنِّيْ لَاَظُنُّهٗ كَاذِبًا: ’’إِنَّ‘‘ اور ’’لام‘‘ کے ساتھ تاکید کی وجہ سے یہاں ظن (گمان) یقین کے معنی میں ہے، یعنی موسیٰ جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے، یا یہ کہ اس کا رب آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے، تو مجھے یقین ہے کہ وہ جھوٹا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں سے اوپر عرش پر ہے، اس پر تمام انبیاء و رسل، صحابہ و تابعین اور ائمۂ دین کا اتفاق ہے۔ افسوس! اس مقام پر کئی مفسرین نے، جو یونان کے مشرک فلسفیوں سے متاثر ہیں، اللہ تعالیٰ کے آسمان پر یا بلندی کی طرف یا عرش پر ہونے کا انکار کیا ہے، بلکہ بعض نے تو اتنی جرأت کی ہے کہ اسے فرعون کا عقیدہ قرار دیا ہے، حالانکہ وہ موسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ ہے جس کا فرعون انکار کر رہا ہے اور اس میں موسیٰ علیہ السلام کو جھوٹا کہہ رہا ہے ، اس کے علاوہ قرآن مجید کی ’’ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ‘‘ والی تمام آیات اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ اسی طرح وہ آیات بھی جن میں اللہ تعالیٰ کے آسمانوں کے اوپر ہونے کا ذکر ہے۔ دیکھیے سورۂ ملک (۱۶، ۱۷)، حاقہ (۱۷) اور طٰہٰ (۵) کی تفسیر۔ 3۔ وَ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ ....: یعنی اس طرح فرعون کے لیے اس کا برا عمل، یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار، اپنے رب الاعلیٰ ہونے پر اصرار، موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب اور بنی اسرائیل پر ظلم و ستم خوش نما بنا دیا گیا اور وہ ان کاموں کو اچھا سمجھ کر ان پر چلتا رہا۔ خوش نما بنانے والا کون تھا؟ تو یہ اس کی خواہشِ نفس، شیطان، برے ساتھی (دیکھیے انعام : ۱۲۲، ۱۳۷۔ انفال: ۴۸) اور خود اللہ تعالیٰ تھا، کیونکہ ہر چیز کا خالق وہی ہے۔ (دیکھیے انعام : ۱۰۸۔ نمل : ۴) اور جو مخالفت پر کمر باندھ لے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی مرضی پر چھوڑ دیتا ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۱۵)۔ 4۔ وَ مَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِيْ تَبَابٍ: ’’ تَبَابٍ ‘‘ ’’تَبَّ يَتُبُّ‘‘ (ن) کا مصدر ہے، ہلاکت، تباہی اور خسارہ۔ یہ لازم و متعدی دونوں معنوں میں آتا ہے۔ یعنی اس نے جتنی چالیں چلیں سب اس کی تباہی کا سبب بنتی چلی گئیں، بالآخر وہ اپنے لشکروں سمیت سمندرمیں غرق کر دیا گیا۔ یہی حال ہر جھوٹے اور مکار آدمی کا ہوتا ہے۔ 5۔ فرعون نے وہ محل بنایا یا نہیں، اس کی وضاحت اور ان دونوں آیتوں کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ قصص (۳۸ تا ۴۰)۔