سورة غافر - آیت 21

أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا اور انہوں نے ملک میں سیر نہیں کی کہ دیکھتے کہ ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جو ان سے پہلے تھے ؟ وہ ان سے زور میں بھی بڑھے ہوئے تھے جو زمین میں چھوڑ گئے ۔ سو اللہ نے انہیں ان کے گناہوں پر پکڑا ۔ اور ان کے لئے اللہ سے کوئی بچانے (ف 1) والا نہ تھا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَوَ لَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ....: گزشتہ آیات میں کفار کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے، اب دنیا میں آنے والے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے کہ کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر ان قوموں کا انجام نہیں دیکھا جو ان سے پہلے انبیاء کو جھٹلانے کے جرم میں ہلاک کی گئیں؟ كَانُوْا هُمْ اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّ اٰثَارًا فِي الْاَرْضِ....: اس کی مفصل تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ روم کی آیت (۹ ) کی تفسیر۔ وَ مَا كَانَ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ وَّاقٍ: ’’ وَاقٍ ‘‘ اصل میں ’’وَاقِيٌ‘‘ ہے، جو ’’وَقٰي يَقِيْ وِقَايَةً‘‘ (ض) سے اسم فاعل ہے، بچانے والا۔ یعنی ان سے زیادہ قوت و آثار والی اقوام پر ان کے گناہوں کی وجہ سے جب اللہ تعالیٰ کی گرفت آئی تو انھیں اللہ تعالیٰ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ اسی طرح جب ان لوگوں پر اللہ کا عذاب آیا تو انھیں بھی کوئی نہیں بچا سکے گا۔