قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ
تو کہہ اے نادانو ! کیا تم مجھے حکم دیتے ہو ۔ کہ میں غیر (ف 1) خدا کو پوجوں ؟
1۔ قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّيْ اَعْبُدُ : ’’ قُلْ ‘‘ کے بعد جملہ ’’فاء‘‘ سے شروع ہوتا ہے، مگر ہمزہ استفہام چونکہ کلام کی ابتدا میں ہوتا ہے، اس لیے ’’فاء‘‘ کو اس کے بعد کر دیا ہے، اسی طرح جملہ فعلیہ کا آغاز فعل ’’ تَاْمُرُوْٓنِّيْ ‘‘ سے ہونا تھا اور ’’غَيْرَ اللّٰهِ‘‘ کو ’’اَعْبُدُ ‘‘ کے بعد ہونا تھا، مگر ’’غَيْرَ اللّٰهِ‘‘ کی تحقیر کو نمایاں کرنے کے لیے اسے پہلے ذکر فرمایا۔ یعنی جب ہر چیز کا خالق اللہ ہے اور وہی ہر چیز پر نگران ہے اور اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں تو پھر کیا اس کے ہوتے ہوئے تم مجھے اس کے غیر کی عبادت کا حکم دیتے ہو، جس کے اختیار میں خود اپنا وجود بھی نہیں؟ 2۔ اَيُّهَا الْجٰهِلُوْنَ: جہل کا لفظ حلم کے مقابلے میں آتا ہے اور علم کے مقابلے میں بھی، یہاں علم کے مقابلے میں آیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ’’وحدہ لا شریک لہ معبود‘‘ ہونے کے اتنے واضح دلائل اپنے کانوں سے سننے اور آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود پتھروں، قبروں، جانوروں یا اپنے جیسی بے بس اور بے اختیار مخلوق کی عبادت کی پستی میں گرے ہوئے جاہلو! جو نہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا کچھ علم رکھتے ہو کہ صرف اسی کی عبادت کرو، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان سے واقف ہو کہ انھیں غیر اللہ کی عبادت کی دعوت کی جرأت کر رہے ہو اور نہ ہی اس شرف کا کچھ علم رکھتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں انسان بنا کر عطا کیا ہے کہ اتنی اونچی مخلوق ہو کر اپنے جیسی یا اپنے سے بھی ادنیٰ مخلوق کی عبادت کر رہے ہو۔ اقبال نے کہا ہے: آدم از بے بصری بندگیٔ آدم کرد من نہ دیدم کہ سگے پیش سگے سر خم کرد ’’آدمی بے سمجھی کی وجہ سے آدمی کی بندگی کرنے لگا۔ میں نے تو یہ بھی نہیں دیکھا کہ کسی کتے نے کسی کتے کے آگے سر جھکایا ہو۔‘‘