أَن تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّهِ وَإِن كُنتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ
ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کہنے لگے کہ اے افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں نے خدا کے حق میں کی ، اور البتہ میں ٹھٹھا کرنے والوں میں ہی رہا
1۔ اَنْ تَقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰى ....: ’’ اَنْ ‘‘سے مراد ’’لِئَلَّا‘‘ ہے، جیسا کہ سورۂ نحل کی آیت (۱۵) میں ہے : ﴿وَ اَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ ﴾ ’’أَيْ لِئَلَّا تَمِيْدَ بِكُمْ ‘‘ ’’اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے، تاکہ وہ تمھیں ہلا نہ دے۔‘‘ ’’يٰحَسْرَتٰى ‘‘ اصل میں ’’حَسْرَةٌ‘‘ یائے متکلم کی طرف مضاف ہے، جسے ’’الف‘‘ میں بدل دیا ہے۔ حسرت شدید پشیمانی اور افسوس کو کہتے ہیں، ہائے میرا افسوس! ’’ فَرَّطْتُّ ‘‘ ’’فَرَّطَ يُفَرِّطُ تَفْرِيْطًا‘‘ کوتاہی کرنا اور ’’أَفْرَطَ يُفْرِطُ إِفْرَاطًا‘‘ زیادتی کرنا۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ اس وقت کوئی شخص یہ کہے کہ ہائے میرا افسوس! میری اس کوتاہی اور نافرمانی پر جو میں ساری کائنات کے خالق و مالک اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس کے سامنے کرتا رہا، جو کسی چیز سے بے خبر نہیں۔ 2۔ وَ اِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ : ’’ اِنْ ‘‘ اصل میں ’’ إِنِّيْ‘‘ ہے۔ ’’إِنَّ‘‘ کے نون کو ساکن اور اس کے اسم ’’یائے متکلم‘‘ کو حذف کر دیا۔ دلیل اس کی ’’ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ ‘‘ پر آنے والا لام ہے، اور بے شک میں تو مذاق کرنے والوں سے تھا۔ یعنی افسوس! میں نے صرف نافرمانی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دوسروں کے ساتھ مل کر مذاق اڑانے میں بھی شریک رہا۔ ظاہر ہے اجتماعی طور پر مذاق اڑانے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور زیادہ مخالفت ہے۔ اس آیت سے بھی واضح ہے کہ ’’قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا ‘‘ سے لے کر سلسلہ کلام کفار کے متعلق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور قیامت کا مذاق وہی اُڑاتے ہیں۔ مومن کیسا بھی بدعمل ہو اس کا ایمان اسے مذاق اُڑانے کی اجازت نہیں دیتا۔