لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ
تاکہ اللہ ان کے برے اعمال جو انہوں نے کئے تھے ان سے دور کرے ۔ اور نیک کاموں کے بدلے میں جو وہ کرتے (ف 3) تھے انہیں ان کا اجر دے
1۔ لِيُكَفِّرَ اللّٰهُ عَنْهُمْ اَسْوَاَ الَّذِيْ عَمِلُوْا : ’’ لِيُكَفِّرَ اللّٰهُ ‘‘ محذوف فعل ’’أَعْطَاهُمْ ذٰلِكَ‘‘ کے متعلق ہے، یعنی اللہ تعالیٰ انھیں یہ جزا دے گا، تاکہ وہ ان سے وہ بدترین عمل دور کر دے جو انھوں نے کیے…۔ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ عدل سے بڑھ کر فضل کا معاملہ فرمائے گا۔ عدل یہ ہے کہ نیکیوں اور برائیوں کو برابر شمار کرکے جزا دی جائے، جب کہ فضل یہ ہے کہ برائی صرف ایک لکھی جائے اور نیکی دس گنا سے سات سو گنا یا بے حساب لکھی جائے، فرمایا : ﴿ اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴾ [ الزمر : ۱۰] ’’صرف کامل صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔‘‘ اسی فضل کی بدولت اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندوں کے سب سے برے اعمال دور کر دے گا۔ جب سب سے برے اعمال دور ہو گئے تو کم برے اعمال بھی دور کر دے گا۔ چنانچہ اگر وہ پہلے کافر ہیں تو اسلام لانے کی بدولت پہلے گناہ معاف کر دے گا، اگر مسلمان تھے تو توبہ، ہجرت، حج اور ان کے تقویٰ کی وجہ سے ان کے تمام گناہ دور کر دے گا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ يُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ ﴾ [ الأنفال : ۲۹ ] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمھارے لیے (حق و باطل میں) فرق کرنے کی بڑی قوت بنا دے گا اور تم سے تمھاری برائیاں دور کر دے گا اور تمھیں بخش دے گا اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ مائدہ (۶۵)، سورۂ محمد (۲)، تغابن (۹)، عنکبوت (۷) اور احقاف (۱۶)۔ 2۔ وَ يَجْزِيَهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : یعنی انھیں ان کے اعمال کا بدلا ان کے ان اعمال کے لحاظ سے دیا جائے گا جو ان کے نامہ اعمال میں بہترین ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے کم تر درجے کے اعمال بھی بہترین بنا دیے جائیں گے اور ایک نیکی کا بدلا دس گنا سے سات سو گنا تک بلکہ بغیر حساب کے دیا جائے گا۔ دیکھیے سورۂ نحل (۹۶، ۹۷) اور طور (۲۱)۔