لَن يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى ۖ وَإِن يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ
وہ تم کو کچھ ضرر نہ پہنچا سکیں گے مگر تھوڑا سا دکھ دیں گے اور اگر تم سے لڑیں گے ، پیٹھ پھیر کر تمہارے مقابلے سے بھاگیں گے ، پھر ان کو مدد نہ ملے گی ۔
اِلَّاۤ اَذًى: ”اَذًى“ میں تنوین تقلیل و تحقیر کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’معمولی تکلیف‘‘ کیا ہے، مراد زبانی بہتان تراشی اور سازشیں ہیں، مگر میدان میں تمہارے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یہود کو مسلمانوں کے مقابلے میں ہر جگہ شکست ہوئی اور رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا، بالآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے انھیں جزیرۂ عرب سے جلاوطن کر دیا۔ یہ آیت اخبار بالغیب اور پیشین گوئی پر مشتمل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں فتح و کامیابی اور نصرت کی بشارت دی ہے۔ اب اگرچہ یہود نصرانیوں کے بل بوتے پر فلسطین کے کچھ حصے اور بیت المقدس پر قابض ہیں، مگر وہ وقت قریب آ رہا ہے کہ جب مسلمانوں کے ساتھ یہود کی جنگ میں پتھر اور درخت بھی مسلمان کو بلا کر کہیں گے : ’’اے مسلم ! یہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے، اسے قتل کر دے۔‘‘ [ مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعۃ حتی....: ۲۹۲۱، ۲۹۲۲ ]