أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيزِ الْوَهَّابِ
کیا ان کے پاس تیرے رب بخشنے والے کی رحمت (ف 1) کے خزانے ہیں ؟
اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىِٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ ....: یہ ان کی اس بات کا جواب ہے کہ ہم میں سے اسی پر یہ ذکر کیوں نازل کیا گیا۔ فرمایا، کیا تیرے عزیز و وہّاب رب کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں کہ جس کو جو نعمت چاہیں دیں، جسے چاہیں نہ دیں اور جسے یہ چاہیں اسے نبوت کا بلند منصب عطا کریں؟ نہیں، ہر گز نہیں! بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے خزانوں کا اکیلا خود مالک ہے، اپنی رسالت کے لیے جسے چاہتا ہے چُن لیتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم رکھتا ہے۔ اب اگر اس نے اپنی نعمت رسالت کے لیے آپ کو چُنا ہے تو یہ حسد کیوں کرتے ہیں؟ اس اعتراض کا یہی جواب سورۂ انعام (۱۲۴) اور زخرف (۳۱، ۳۲) میں دیا گیا ہے، جیسا کہ اس سے پہلی آیت کے پہلے فائدے میں گزر چکا ہے۔