فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ
پھر قرعہ ڈالا تو دھکیلے ہوؤں میں ہوگیا
1۔ فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ:’’سَاهَمَ‘‘ (مفاعلہ) قرعہ میں حصہ لینا۔ ’’ الْمُدْحَضِيْنَ ‘‘ ’’أَدْحَضَ يُدْحِضُ‘‘ (افعال) میں سے اسم مفعول ہے، پھسلانا، باطل کرنا۔ ان آیات سے واقعہ کی یہ صورت سمجھ میں آتی ہے کہ یونس علیہ السلام جس کشتی میں سوار ہوئے وہ اپنی گنجائش سے زیادہ بھرئی ہوئی تھی۔ دوران سفر طوفان یا کسی خطرے کی صورت میں زائد بوجھ کم کرنے کے لیے پہلے سامان سمندر میں پھینکا جاتا ہے، اس کے بعد بھی اگر خطرہ باقی رہے تو کچھ آدمیوں کو پھینک دیا جاتا ہے، تاکہ سب لوگ غرق نہ ہوں۔ یونس علیہ السلام جس کشتی میں سوار ہوئے اس کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ قرعہ ڈالا جائے اور جن لوگوں کا نام پھینکنے کے لیے نکلے، انھیں سمندر میں پھینک دیا جائے۔ قرعہ ڈالا گیا تو یونس علیہ السلام کا نام بھی ان لوگوں میں نکلا جو سمندر میں پھینکے جانے والے تھے۔ ’’ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ ‘‘ (تو وہ قرعہ ہارنے والوں یا پھسلائے گئے آدمیوں میں سے ہو گیا) کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ قرعہ میں یونس علیہ السلام کے ساتھ اور لوگوں کا نام بھی نکلا، اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے۔ مختصر یہ کہ سب کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ 2۔ اس مقام پر بعض تفاسیر میں لکھا ہے : ’’جب یونس علیہ السلام کشتی میں سوار ہو گئے اور کشتی گہرے پانی میں پہنچی تو آگے بڑھنے کے بجائے چکر کھانے لگی۔ کشتی والوں نے کشتی میں سوار لوگوں سے کہا کہ ایسا معاملہ ہمیں اس وقت پیش آتا ہے جب کوئی بھاگا ہوا غلام کشتی میں سوار ہو۔ انھوں نے قرعہ ڈالا کہ جس کا نام قرعہ میں نکلے اسے سمندر میں پھینک دیا جائے۔ تین بار قرعہ ڈالا گیا، لیکن وہ ہر بار یونس علیہ السلام ہی کے نام پر نکلا۔ بار بار قرعہ اس لیے ڈالا گیا کہ وہ لوگ یونس علیہ السلام کی نیکی دیکھ کر انھیں سمندر میں پھینکنا نہیں چاہتے تھے۔ جب تین بار قرعہ انھی کے نام پر نکلا تو وہ خود ہی یہ کہہ کر سمندر میں کودنے کے لیے تیار ہو گئے کہ وہ بھاگا ہوا غلام میں ہوں۔‘‘ اس حکایت میں وہ باتیں ہیں جو قرآن و حدیث میں نہیں ہیں اور نہ ہی کسی معتبر ذریعے سے ثابت ہیں، اس لیے ان کا اعتبار مشکل ہے۔