سورة الصافات - آیت 75
وَلَقَدْ نَادَانَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ
ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی
اور ہمیں نوح (علیہ السلام) نے پکارا (ف 3) تھا سو ہم کیا خوب دعا قبول کرنے والے ہیں۔
تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد
1۔ وَ لَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ : پکارنے سے مراد وہ دعا ہے جو نوح علیہ السلام نے ساڑھے نوسو سال تک صبرو استقامت کے ساتھ دعوت دینے کے بعد اس وقت کی جب اللہ تعالیٰ نے انھیں آگاہ کیا کہ اب تمھاری قوم میں سے ان کے سوا کوئی ایمان نہیں لائے گا جو ایمان لا چکے۔ اس دعا کا ذکر سورۂ قمر (۱۰) اور سورۂ نوح (۲۶) میں ہے۔ 2۔ فَلَنِعْمَ الْمُجِيْبُوْنَ : یہاں اس کے بعد مخصوص بالمدح ’’نَحْنُ‘‘ محذوف ہے، یعنی یقیناً ہم اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں۔ نوح علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ ہود (۳۶ تا ۴۸)۔