لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
جب تک تم اپنی پیاری چیزوں میں سے خرچ نہ کرو ‘ بھلائی کو ہرگز حاصل نہیں کرسکتے اور جو تم خرچ کرتے ہو ‘ وہ اللہ کو معلوم ہے (ف ١)
1۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ....:”الْبِرَّ“ ’’کامل نیکی ‘‘، ”مِمَّا تُحِبُّوْنَ“ (اس میں سے کچھ خرچ کرو جس سے تم محبت رکھتے ہو) عام ہے، یعنی جان و مال، اولاد و اقارب، جاہ و عزت، غرض ہر چیز کو شامل ہے۔ یہ خطاب مسلمانوں کو بھی ہے اور یہود کو بھی۔ مسلمانوں سے خطاب کی مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ پچھلی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ کافر کو خرچ کرنے سے کچھ بھی نفع نہیں ہو گا، اب اس آیت میں مومنوں کو خرچ کرنے کی کیفیت بتلائی، جس سے آخرت میں انھیں نفع ہو گا۔ 2۔ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ....: مقصد یہ کہ انسان جو کچھ بھی فی سبیل اللہ خرچ کرتا ہے، تھوڑا ہو یا زیادہ، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور انسان کو (بشرطیکہ مسلمان ہو اور اخلاص سے خرچ کرے) اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔ اس لیے معمولی چیز خرچ کرنے کو بھی عار نہ سمجھے۔مگر نیکی میں کامل درجہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عزیز ترین چیز صرف کی جائے۔ یہ آیت سن کر اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کی ایک دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:’’یا رسول اللہ ! میری جائداد میں سے مجھے سب سے محبوب ’’بَيْرُحَاء‘‘ باغ ہے (جو عین مسجد نبوی کے سامنے تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا نفیس پانی پیا کرتے تھے) اور اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﴾ سو میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجر و ثواب کی امید رکھتا ہوں، آپ اس کے بارے میں جو چاہیں فیصلہ فرما دیں۔‘‘ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ علی الأقارب:۱۴۶۱، مختصرًا ]عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:’’اے اللہ کے رسول! مجھے خیبر میں سے جو حصہ ملا ہے اس سے بڑھ کر نفیس مال مجھے آج تک حاصل نہیں ہوا، میں نے ارادہ کیا ہے کہ اسے صدقہ کر دوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اصل اپنے پاس رکھو اور اس کے پھل کو اللہ کے راستے میں تقسیم کر دو۔‘‘ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے وقف کر دیا۔ [ بخاری، الشروط، باب الشروط فی الوقف:۲۷۳۷۔ ابن ماجہ :۲۳۹۶، ۲۳۹۷ ] 3۔ یہود سے خطاب کی صورت میں شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’شاید یہود کے ذکر میں یہ آیت اس واسطے ذکر فرمائی کہ ان کو اپنی ریاست بہت عزیز تھی، جس کے تھامنے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع نہ ہوتے تھے، تو جب وہی نہ چھوڑیں تو اللہ کی راہ میں درجۂ ایمان نہ پائیں۔‘‘ (موضح) 4۔ مِمَّا تُحِبُّوْنَ:اللہ کا کرم دیکھیے، بندوں سے ان کی محبوب چیزیں ساری نہیں مانگیں، بلکہ اس میں سے کچھ خرچ کرنے ہی کو کامل نیکی قرار دے دیا ہے۔