بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُونَ
بلکہ تعجب کیا تونے اور وہ ٹھٹھے کرتے ہیں
1۔ بَلْ عَجِبْتَ : یہاں ایک سوال ہے کہ یہاں ’’ بَلْ ‘‘ لانے کا کیا فائدہ ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ’’فَاسْتَفْتِهِمْ‘‘ (ان سے پوچھ) کہ تمھیں دوبارہ پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا جو کچھ ہم پیدا کر چکے؟ جواب اس کا اس کے سوا ہو ہی نہیں سکتا کہ یقیناً وہ سب کچھ انسان کے دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ اس سوال کا مقصد انھیں لاجواب کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اتنے واضح دلائل کے باوجود یہ لوگ قیامت سے انکار کیوں کرتے ہیں، یہ بات انسان کی سمجھ میں نہیں آ سکتی، بلکہ اے نبی یا اے مخاطب! اس پر تجھے تعجب ہوتا ہے اور تعجب ہونا بھی چاہیے، کیونکہ بات ہی تعجب کی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ وَ اُولٰٓىِٕكَ الْاَغْلٰلُ فِيْ اَعْنَاقِهِمْ وَ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ﴾ [ الرعد : ۵ ] ’’اور اگر تو تعجب کرے تو ان کا یہ کہنا بہت عجیب ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو کیا واقعی ہم یقیناً ایک نئی پیدائش میں ہوں گے۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کا انکار کیا اور یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور یہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘ 2۔ وَ يَسْخَرُوْنَ : یعنی تجھے ان پر تعجب ہوتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جب دلائل سے لاجواب ہوتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہیں۔