لَّا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ وَيُقْذَفُونَ مِن كُلِّ جَانِبٍ
اوپر واقل مجلس کے لوگوں کی طرف شیاطین کان نہیں لگاسکتے اور ہر طرف سے انگارے پھینکے جاتے ہیں
لَا يَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰى ....: ’’ لَا يَسَّمَّعُوْنَ ‘‘ اصل میں ’’لَا يَتَسَمَّعُوْنَ‘‘ (تفعّل) ہے۔ ’’اوپر کی مجلس‘‘ سے مراد فرشتوں کی مجلس ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ کے لیے آپس میں گفتگو کرتے ہیں کہ آئندہ فلاں کام کب اور کیسے کرنا ہے۔ یعنی ان ستاروں کے ذریعے سے سرکش شیاطین سے فرشتوں کی باتیں محفوظ رکھنے کا اتنا زبردست انتظام ہے کہ وہ ان کی مجلس کی طرف کان بھی نہیں لگا سکتے، بلکہ ان پر ہر جانب سے شہاب پھینکے جاتے ہیں۔ اگر ’’ اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ ‘‘ کا استثنا نہ ہوتا تو یہ آیت دلیل تھی کہ وہ کچھ بھی نہیں سن سکتے، مگر اللہ تعالیٰ نے خود ہی ’’ اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ ‘‘ (مگر جو کوئی اچانک اچک کر لے جائے) کے ساتھ استثنا فرما دیا، جو آگے آرہا ہے۔