أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ
کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے لئے چار پائے پیداکئے جو ہمارے ہاتھوں نے بنائے ہیں ، پھر وہ ان کے مالک ہیں
اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ ....: یہاں سے پھر توحید اور اس کے بعد آخرت کے دلائل کا بیان ہے۔’’ اَنْعَامًا ‘‘ ’’نَعَمٌ‘‘ کی جمع ہے، یعنی کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ یہ جانور جن کے یہ مالک بنے ہوئے ہیں، یہ سب ہم نے پیدا کیے ہیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کا ذکر قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی ہے اور ان پر ایمان رکھنا اور ان کی کیفیت اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا واجب ہے، تاہم یہاں اہلِ علم نے ’’اپنے ہاتھوں سے‘‘ بنانے کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں کسی کی شرکت یا واسطے کے بغیر خود بنایا ہے۔ ان کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر دخل نہیں ہے۔ (فتح البیان)