سورة آل عمران - آیت 80

وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور لائق نہیں ہے کہ تمہیں کہے کہ تم فرشتوں کو اور نبیوں کو رب بنا لو ، کیا وہ تمہیں کفر سکھائے گا اور بعد اس کے کہ تم مسلمان ہوچکے ۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا يَاْمُرَكُمْ....: اور نہ نبی کا یہ حق ہے کہ تمہیں اس بات کا حکم دے کہ تم فرشتوں اور نبیوں کو رب بنا لو۔ یہ کام تو صریح کفر ہے، پھر ایک پیغمبر تمہارے مسلمان ہونے کے بعد تمہیں کفر کا حکم کیسے دے سکتا ہے؟ 2۔ اس آیت میں یہود و نصاریٰ کے طرز عمل پر چوٹ ہے، جنھوں نے انبیاء اور فرشتوں کی تعظیم میں اس قدر غلو کیا کہ ان کو رب تعالیٰ کے مقام پر کھڑا کر دیا۔ انبیاء اور صالحین کی قبروں پر عمارتیں بنا کر ان میں ان کی تصویریں بنا ڈالیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے ایک کنیسہ (گرجے) کا ذکر کیا، جو انھوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، جس میں تصویریں تھیں۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:’’ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی ہوتا اور وہ فوت ہو جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بنا دیتے اور اس میں یہ تصویریں بنا دیتے، یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کے ہاں ساری مخلوق سے بدتر ہوں گے۔‘‘ [بخاری، مناقب الأنصار، باب ھجرۃ الحبشۃ:۳۸۷۳ ] اب آپ کو مسلمانوں کے ہر شہر اور تقریباً ہر محلے میں یہی نقشہ نظر آئے گا۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو چونا گچ کرنے، اس پر عمارت بنانے یا اس پر (مجاور بن کر) بیٹھنے سے منع فرمایا۔ [مسلم، الجنائز، باب النھی عن تجصیص القبر والبناء علیہ:۹۷۰، عن جابر رضی اللّٰہ عنہ] بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ہر تصویر کو مٹا دو اور ہر اونچی قبر کو برابر کر دو۔ [مسلم، الجنائز، باب الأمر بتسویۃ القبر:۹۶۹ ] استاذ محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس آیت:﴿اَيَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ﴾ سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی نبی یا فرشتے کی پرستش صریح کفر ہے اور کوئی ایک تعلیم یا فلسفہ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی بندگی سکھائے یا اللہ کے کسی نبی یا بزرگ کو رب تعالیٰ کے مقام پر بٹھائے وہ ہر گز اللہ تعالیٰ یا اس کے نبی کی تعلیم نہیں ہو سکتی۔ ”اَيَاْمُرُكُمْ“ میں استفہام انکاری ہے، یعنی یہ ممکن ہی نہیں، کیونکہ انبیاء تو لوگوں کو عبادتِ الٰہی کی تعلیم دینے اور مسلمان بنانے کے لیے مبعوث ہوتے ہیں نہ کہ الٹا کافر بنانے کے لیے۔ (قرطبی، ابن کثیر)