وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُم بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اور ان میں ایک فریق ہے جو کتاب پڑھنے میں اپنی زبان مروڑتے ہیں ، تاکہ تم اس بات کو کتاب میں کی سمجھو ، حالانکہ وہ بات کتاب میں کی نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کر خدا پر جھوٹ بولتے ہیں ۔ (ف ١)
وَ اِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيْقًا يَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتٰبِ....: اس کا عطف پہلی آیت پر ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اوپر کی آیت بھی یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے (اگرچہ لفظ عام ہونے کی وجہ سے ایسے تمام لوگ اس میں داخل ہیں)۔ (رازی) اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ تورات و انجیل میں تحریف کرتے ہیں اور اس میں (خصوصاً ان آیات میں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت مذکور ہے) کچھ چیزیں اپنی طرف سے بڑھا کر اس انداز اور لہجہ سے پڑھتے ہیں کہ سننے والا ان کو اللہ کی طرف سے نازل شدہ سمجھ لیتا ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوئیں، پھر یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ان کی بے خوفی اور ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کے اللہ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں اور جان بوجھ کر اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ افسوس، امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی بہت سے لوگ اسی راہ پر چل رہے ہیں اور وہ اپنی دنیاوی اغراض یا مذہبی فرقہ پرستی کی وجہ سے قرآن کریم کے ساتھ یہ معاملہ کبھی لفظی اور کبھی معنوی تحریف کے ساتھ کرتے ہیں، عوام بے چارے اسے اللہ کا حکم سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ مولوی صاحب یا ان کے کسی پیشوا کی بات ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا:’’یقیناً تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر چل پڑو گے۔‘‘ [بخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم:لتتبعن سنن....: ۷۳۲۰ ]