سورة فاطر - آیت 33

جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

رہنے کے باغ ہیں جن میں وہ داخل ہونگے وہاں نہیں گہنا پہنایا جائیگا سونے کے کنگن اور موتی اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَهَا: یعنی یہ تینوں گروہ آخر کار جنات عدن میں داخل ہو جائیں گے۔ طبری اور بیہقی نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے نقل فرمایا ہے : (( هُمْ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ، وَرَّثَهُمُ اللّٰهُ كُلَّ كِتَابٍ أَنْزَلَهُ، فَظَالِمُهُمْ يُغْفَرُ لَهُ، وَ مُقْتَصِدُهُمْ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا، وَ سَابِقُهُمْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ )) [طبري : ۲۹۲۳۶۔ البعث والنشور للبیھقي:1؍ 68، ح :۶۴] ’’یہ (کتاب کے وارث) امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی نازل کردہ تمام کتابوں کا وارث بنایا۔ ان میں سے ظالم کو بخش دیا جائے گا، ان کے میانہ رو کا آسان حساب ہو گا اور ان کے سبقت لے جانے والے جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے۔‘‘ یعنی امت مسلمہ میں سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے لوگ اگر جہنم میں گئے بھی تو ہمیشہ وہاں نہیں رہیں گے، بلکہ ایمان کی برکت سے انھیں شفاعت کے ذریعے سے یا ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے نتیجے میں جہنم سے نکال لیا جائے گا اور وہ جنات عدن میں داخل ہو جائیں گے اور یہ بہت ہی بڑا فضل ہے جو ان لوگوں کو کبھی حاصل نہیں ہو گا جو امت مسلمہ میں داخل ہو کر کتاب اللہ کے وارث نہیں بنے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر جنت کی نعمتیں ہمیشہ کے لیے حرام کر دی ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِيْنَ﴾ [ الأعراف : ۵۰ ] ’’اللہ تعالیٰ نے جنت کا پانی اور اس کا رزق کافروں پر حرام کر دیا ہے۔‘‘ 2۔ بعض مفسرین نے ان تینوں گروہوں میں سے ’’ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ‘‘ کفار کو قرار دیا ہے اور تینوں گروہوں کی تفصیل ان تین گروہوں کے مطابق کی ہے جن کا ذکر سورۂ واقعہ میں ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کی تین قسمیں ہو جائیں گی، اصحاب الیمین، اصحاب الشمال اور سابقون۔ ان میں سے سابقون اور اصحاب الیمین جنتی ہوں گے اور اصحاب الشمال جہنمی ہوں گے۔ مگر پہلی تفسیر راجح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تینوں گروہوں کا ذکر کرکے تینوں کے متعلق فرمایا کہ وہ جنات عدن میں داخل ہوں گے۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب امت مسلمہ کا ہر فرد ہی جنت میں داخل ہو گا تو ایمان لانے کے بعد جہنم سے ڈرانے اور ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے کوئی جہنم میں نہیں جائے گا، بلکہ اگر کوئی شخص جہنم میں مدتوں رہنے کے بعد آخر کار جنت میں داخل ہو جائے تو یہ بھی فضل کبیر ہے۔ کیونکہ جب ایسے لوگ جنت میں جائیں گے تو کافر اس وقت تمنا کریں گے کہ کاش! وہ کسی درجے کے بھی مسلمان ہوتے تو ہمیشہ جہنم میں نہ رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ ﴾ [ الحجر : ۲ ] ’’بہت بار چاہیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کاش! وہ کسی طرح کے مسلم ہوتے۔‘‘ مزید سورۂ حجر کی آیت (۲) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ ....: اس کی مفصل تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ حج کی آیت (۲۳)۔