سورة سبأ - آیت 43

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَن يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ وَقَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ مُّفْتَرًى ۚ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب ہماری روشن (ف 1) آیتیں ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ اور کچھ نہیں تو صرف ایک آدمی ہے چاہتا ہے کہ جن کی عبادت تمہارے باپ (ف 2) دادے کرتے تھے تمہیں ان سے روک دے اور کہتے ہیں اور کچھ نہیں یہ تو جھوٹ باندھا ہوا ہے اور کافروں نے حق کی نسبت جب وہ ان کے پاس آیا تو یوں کہا کہ یہ اور کچھ نہیں صرف کھلا ہوا جادو ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا ....: یہ ذکر کرنے کے بعد کہ قیامت کے دن مشرکین جہنم میں جائیں گے اور ان کے بنائے ہوئے معبود ان کے کچھ کام نہ آئیں گے، اب ان کے اس عذاب کا حق دار ہونے کی وجہ بیان فرمائی، جو یہ تھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا اسلام کے کسی داعی نے ان کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھیں تو انھوں نے وہ الفاظ کہے جو اس آیت میں ذکر ہوئے ہیں۔ قَالُوْا مَا هٰذَا اِلَّا رَجُلٌ ....: یعنی یہ شخص تمھیں ان ہستیوں کی عبادت سے روکنا چاہتا ہے جن کی عبادت تمھارے آبا و اجداد مدت سے کرتے چلے آئے ہیں۔ مقصد ان کا لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے والے کے خلاف بھڑکانا تھا، یہ کہہ کر کہ یہ شخص تمھیں تمھارے آباء کے دین سے روکنا چاہتا ہے، تو کیا تمھارے آبا و اجداد کوئی پاگل تھے جو ان کی عبادت کرتے تھے۔ پھر یہ نہیں کہ انھوں نے ایک آدھ دفعہ یہ کام کیا ہو، بلکہ’’ كَانَ يَعْبُدُ اٰبَآؤُكُمْ ‘‘ وہ مدت سے ان کی عبادت کرتے چلے آئے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک ان کے شرک کے حق ہونے کی واحد دلیل آبا و اجداد کی تقلید تھی، جو سراسر جہل ہے، جس کا علم سے کوئی تعلق نہیں۔ وَ قَالُوْا مَا هٰذَا اِلَّا اِفْكٌ مُّفْتَرًى : یہاں ’’هٰذَا‘‘ سے مراد قرآن ہے۔ لفظ ’’اِفْكٌ مُّفْتَرًى‘‘ میں قرآن کے متعلق انھوں نے دو باتیں کہیں، ایک تو یہ کہ فی نفسہ یہ جھوٹ ہے، دوسری یہ کہ اسے گھڑ کر اللہ کے ذمے لگا دیا گیا ہے۔ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ ....: کفار کی پریشان گوئی دیکھیے کہ کبھی اسے جھوٹ کہتے ہیں اور کبھی اسے واضح جادو کہتے ہیں، اور یہ جو فرمایا کہ جب ان کے پاس حق آگیا تو انھوں نے اسے واضح جادو کہا، تو مراد اس سے یہ ہے کہ اگر انھیں حق کا علم نہ ہوتا اور وہ اس قسم کی باتیں کرتے تو شاید معذور ہوتے، اب حق واضح ہو جانے کے بعد انکار کی صورت میں جہنم کے سوا ان کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟