وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَن يُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَاجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ ۗ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور بات اسی شخص کی مانو جو تمہارے دین کے تابع ہے تو کہہ ہدایت وہی ہے جو اللہ ہدایت کرے ، اس لئے کہ جو تم کو دیا گیا ہے ، وہ کسی کو نہیں دیا گیا ۔یا یہ کہ تمہارے رب کے پاس وہ تم سے جھگڑا کریں تو کہہ فضل خدا کے ہاتھ میں ہے ‘ جسے چاہے دے ۔ اور خدا گنجائش والا ہے ۔
وَ لَا تُؤْمِنُوْۤا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِيْنَكُمْ....: یہ بھی ان گروہوں کا کلام ہے جن کا ذکر چلا آ رہا ہے اور اس سے ان کا مذہبی تعصب اور حسد ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اپنے متبعین کو تاکید کرتے رہتے ہیں:﴿ وَ لَا تُؤْمِنُوْۤا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِيْنَكُمْ ﴾ امام طبری نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ اپنے ہم مشرب کے سوا کسی کی بات پر یقین نہ کرو، نہ یہ تسلیم کرو کہ تمہاری طرح کسی اور کو بھی نبوت دی جا سکتی ہے اور نہ یہ مانو کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے حضور جا کر تم پر کوئی حجت قائم کر سکیں گے۔ اس صورت میں ﴿قُلْ اِنَّ الْهُدٰى هُدَى اللّٰهِ ﴾ جملہ معترضہ ہو گا اور اس کا ربط ﴿قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللّٰهِ ﴾ کے ساتھ ہو گا۔ (ابن کثیر، ابن جریر) یہاں تک ان کی دینی خیانت اور مذہبی تعصب کا بیان تھا، اب اگلی آیت میں ان کی مالی خیانت اور مسلمانوں سے بغض کا بیان ہے۔ (رازی)