سورة سبأ - آیت 39

قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ مرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے رزق کشادہ کرتا (ف 1) ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ کرتا ہے ، اور جو تم خرچ کرتے ہو وہ اس کا بدلا دیتا ہے اور وہ بہتر روزی دینے والا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ يَقْدِرُ لَهٗ : یہ الفاظ دوبارہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ دونوں جگہ مقصد مختلف ہے۔ پہلی آیت میں کفار کی بات کا رد مقصود ہے اور یہاں اہلِ ایمان کو خرچ کرنے کی ترغیب مقصود ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ’’ يَقْدِرُ ‘‘ کے ساتھ ’’ لَهٗ ‘‘ کا اضافہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے فراخ کر دیتا ہے اور اسی کا رزق جب چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص اگر یہ سمجھ کر بخل کرے اور اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرے کہ خرچ کرنے سے میرا رزق تنگ ہو جائے گا تو یہ اس کی بھول ہے، رزق کی تنگی یا فراخی کا تعلق اس کے بخل یا سخاوت سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا : (( أَنْفِقْ بِلاَلُ! وَلاَ تَخْشَ مِنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْلَالًا)) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:6؍160، ح : ۲۶۶۱۔ مسند البزار :4؍204، ح : ۱۳۶۶ ] ’’بلال! خرچ کر اور عرش والے کی طرف سے فقیری سے مت ڈر۔‘‘ 2۔ ’’ يَقْدِرُ لَهٗ ‘‘ (اس کے لیے تنگ کر دیتا ہے) میں ’’عَلَيْهِ‘‘ کے بجائے ’’ لَهٗ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کا رزق تنگ بھی اس کے فائدے ہی کے لیے کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ پر قناعت کرنا اور اس پر راضی ہو جانا بہت بڑی سعادت ہے اور اس میں حساب بھی کم ہے۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَ رُزِقَ كَفَافًا وَ قَنَّعَهُ اللّٰهُ بِمَا آتَاهُ )) [ مسلم، الزکاۃ، باب في الکفاف والقناعۃ : ۱۰۵۴ ] ’’یقیناً وہ شخص کامیاب ہو گیا جو اسلام لایا اور اسے گزارے کے مطابق رزق دیا گیا اور اللہ نے اسے جو کچھ دیا اس پر قانع کر دیا۔‘‘ وَ مَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ : یعنی اللہ کی راہ میں اس کے حکم کے مطابق زیادہ سے زیادہ یا کم سے کم جو چیز بھی خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دنیا میں اور عطا فرمائے گا اور آخرت کے اجر کا تو کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيْهِ إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ فَيَقُوْلُ أَحَدُهُمَا اللّٰهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَ يَقُوْلُ الْآخَرُ اللّٰهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا )) [ بخاري، الزکاۃ، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿فأما من أعطی ....﴾ : ۱۴۴۲ ] ’’جس دن بھی بندے صبح کرتے ہیں، اس میں دو فرشتے اترتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے، اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کی جگہ اور دے اور دوسرا کہتا ہے، اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو تباہ کر۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (( يَا ابْنَ آدَمَ! أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ، وَ قَالَ يَمِيْنُ اللّٰهِ مَلْأَی سَحَّاءُ لَا يَغِيْضُهَا شَيْءٌ، اللَّيْلَ وَ النَّهَارَ )) [ مسلم، الزکاۃ، باب الحث علی النفقۃ....: ۹۹۳۔ بخاري : ۴۶۸۴ ] ’’اے آدم کے بیٹے! تو خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‘‘ اور فرمایا : ’’اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، بہت برسنے والا ہے، دن رات خرچ کرنے سے اس میں کوئی چیز کمی نہیں لاتی۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَّالٍ وَ مَا زَادَ اللّٰهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللّٰهُ )) [ مسلم، البر و الصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع : ۲۵۸۸ ] ’’کوئی صدقہ مال میں کمی نہیں لاتا اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ہی میں اضافہ فرماتا ہے اور اللہ کے لیے کوئی نیچا نہیں ہوتا، مگر اللہ تعالیٰ اسے اونچا کر دیتا ہے۔‘‘ وَ هُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ: اس لیے کہ دوسرے تمام دینے والے اسی کے دیے میں سے دیتے ہیں، وہ اکیلا ہے جو ہر چیز اپنے پاس سے دیتا ہے۔