وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ
اور تمہارے مال (ف 1) اور تمہاری اولاد وہ نہیں کہ ہمارے پاس تمہارا درجہ قریب کردیں مگر وہی جو ایمان لایا اور اس نے نیک کام کئے تو ایسے ہی لوگوں کو ان کے اعمال کا دوچند بدلا ملے گا ۔ اور وہ بالاخانوں میں نڈر بیٹھے ہوں گے
1۔ وَ مَا اَمْوَالُكُمْ وَ لَا اَوْلَادُكُمْ ....: اس جملے کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ مال و اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بن سکیں، بلکہ یہی چیزیں اکثر انسانوں کے لیے تقرب کے بجائے الٹا اس کے غضب اور غصے کا سبب بن جاتی ہیں اور اسے لے ڈوبتی ہیں۔ اس کے بجائے اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب کا معیار ایمان اور اعمالِ صالحہ ہیں۔ ’’ اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ‘‘ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان لائے اور اعمال صالحہ بھی لائے تو یہی مال اور اولاد اس کے لیے اللہ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ وہ یوں کہ اپنے مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے اور اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کر کے اسے اللہ کا فرماں بردار بنا دے۔ (تیسیرالقرآن) 2۔ فَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ جَزَآءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا : ’’ الضِّعْفِ ‘‘ ’’نِصْفٌ‘‘ کی ضد ہے، یعنی کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور، پھر یہی لفظ کئی گنا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، جو دس گنا بھی ہو سکتا ہے، سات سو گنا بھی، بلکہ اس سے زیادہ بھی۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۶۱)۔ 3۔ وَ هُمْ فِي الْغُرُفٰتِ : ’’اَلْغُرْفَةُ‘‘ بلند و بالا عمارت، بالا خانہ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ كَمَا يَتَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ فِي الْأُفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ، لِتَفَاضُلِ مَا بَيْنَهُمْ، قَالُوْا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! تِلْكَ مَنَازِلُ الْأَنْبِيَاءِ لَا يَبْلُغُهَا غَيْرُهُمْ، قَالَ بَلٰی، وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! رِجَالٌ آمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ صَدَّقُوا الْمُرْسَلِيْنَ )) [بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ....: ۳۲۵۶ ] ’’جنتی لوگ اپنے سے اوپر بالا خانوں میں رہنے والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے وہ اس ستارے کو دیکھتے ہیں جو آسمان کے کنارے پر مشرق یا مغرب میں گزر رہا ہوتا ہے، کیونکہ ان میں سے بعض بعض سے افضل ہو گا۔‘‘ لوگوں نے کہا : ’’اے اللہ کے رسول! یہ تو انبیاء کے گھر ہوں گے، جہاں ان کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیوں نہیں! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ لوگ (وہاں پہنچیں گے) جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور انھوں نے رسولوں کی تصدیق کی۔‘‘ 4۔ اٰمِنُوْنَ : بے خوف اس لیے ہوں گے کہ جنت کی نعمتیں ابدی اور دائمی ہوں گی اور ان کا دنیا والا خوف دور ہو جائے گا۔