سورة سبأ - آیت 24

قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ آسمانوں اور زمین میں سے تمہیں رزق کون دیتا ہے ؟ تو کہہ کہ اللہ اور یا ہم تم البتہ ہدایت پر ہیں یا صریح گمراہی میں (آخر کوئی تو سچاہے ذرا سوچو)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ قُلِ اللّٰهُ : پچھلی آیت میں بیان کرنے کے بعد کہ مشرکین کے بنائے ہوئے شرکاء کائنات میں ایک ذرے کے مالک نہیں، بلکہ سب کا مالک ایک اللہ تعالیٰ ہے، اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان سے اس بات کا اقرار کروائیں کہ کائنات میں ہر ایک کو رزق بھی وہ اکیلا ہی دے رہا ہے۔ چنانچہ فرمایا، ان سے کہو آسمان سے بارش برسا کر، سورج، چاند اور ستاروں سے گرمی، توانائی اور روشنی بہم پہنچا کر اور تمھارے فائدے کے لیے ہر چیز مسخر کر کے زمین سے تمھارے لیے اور تمھارے چوپاؤں کے لیے خوراک اور زندگی کی ہر ضرورت کون مہیا کرتا ہے؟ یہ سب دل سے مانتے ہیں کہ وہ اللہ ہی ہے، اس لیے اس کا انکار نہیں کر سکتے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے، مگر ان کے لیے اقرار بھی مشکل ہے، کیونکہ اس سے ان کے شرک کی عمارت ڈھے جاتی ہے، کیونکہ وہ اس کا جواز پیش نہیں کر سکتے کہ رزق تو اللہ دے اور عبادت کسی اور کی ہو، اس لیے لامحالہ وہ خاموشی اختیار کریں گے۔ تو اس موقع پر آپ خود اعلان کریں کہ وہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وَ اِنَّا اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى ....: یعنی ہم دو فریق بن چکے ہیں، ایک وہ جو آسمان و زمین میں ایک اللہ ہی کو رزاق مانتے ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو اس کے ساتھ ایسی ہستیوں کو شریک بناتے ہیں جو نہ کائنات کے ایک ذرے کے مالک ہیں، نہ کسی کا نفع و نقصان یا رزق ان کے اختیار میں ہے، اور ہم دونوں میں سے ایک گروہ یا ہدایت پر ہے یا واضح گمراہی میں مبتلا ہے، تم خود فیصلہ کر لو کہ ہدایت پر کون ہے اور گمراہ کون؟ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بات میں کوئی شک ہے کہ ایک رب کو رزاق مان کر اسی کی عبادت کرنے والے حق پر ہیں اور ان کے مخالف باطل پر، بلکہ نہایت حکیمانہ طریقے سے دونوں چیزیں مخاطب کے سامنے رکھ کر خود اس سے انصاف طلب کیا گیا ہے، کیونکہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ کہے دونوں گمراہ ہیں، نہ یہ کہ دونوں حق پر ہیں۔ لا محالہ اسے ماننا پڑے گا کہ ہدایت پر وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو زمین و آسمان کا خالق و رازق ماننے کے بعد عبادت بھی اسی کی کرتا ہے اور وہ شخص یقیناً کھلی گمراہی میں ہو گا جو اللہ تعالیٰ کو خالق و رازق تو مانتا ہے، مگر عبادت دوسروں کی کرتا ہے، لہٰذا آپ اپنے منہ سے کہنے کے بجائے کہ مشرک باطل پر ہے، اسے فیصلے کا موقع دے کر اس مقام پر لے آئیں کہ وہ خود کہے کہ ایک اللہ کی عبادت کرنے والا حق پر ہے اور اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والا باطل پر ہے۔ 3۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ جو جہاں لگا ہوا ہے ٹھیک ہے، یا اپنی جگہ سب لوگ ہی درست ہیں، بلکہ حق ایک ہے اور جو حق پر نہیں وہ باطل پر ہے۔ باہم متضاد باتیں دونوں حق نہیں ہو سکتیں، مثلاً یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ بھی حق ہو کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور یہ بھی حق ہو کہ ہر نشہ آور چیز حرام نہیں۔ نہ ایک مسئلے میں چار متضاد مذہب حق ہو سکتے ہیں۔