سورة سبأ - آیت 23

وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور خدا کے نزدیک شفاعت کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ مگر اس کے لئے جس کے واسطے اللہ اذن دے ۔ یہاں تک کہ جب تک ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ پھر آپ کہتے ہیں سچ بات فرمائی ہے اور وہی بلند مرتبہ سب سے بڑا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ: مشرکین کہتے تھے کہ ہم اپنے معبودوں کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کر کے ہماری حاجت روائی اور مشکل کُشائی کروا دیتے ہیں۔ (دیکھیے یونس : ۱۸۔ زمر : ۳) یہ اس کا رد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کی سفارش کام نہیں آتی، ہاں، جسے وہ خود اجازت دے اور جس کے حق میں اجازت دے۔’’ لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ ‘‘ (جس کے لیے وہ اجازت دے) میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں۔ ظاہر ہے مشرک کو تو شفاعت کرنے کی جرأت ہی نہ ہو گی، اجازت تو دور کی بات ہے اور نہ ہی کسی کو مشرک کے حق میں سفارش کی اجازت ہو گی، کیونکہ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی ہے۔ (دیکھیے مائدہ : ۷۳) صرف ایمان والوں کے حق میں سفارش ہو گی، مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد، حتیٰ کہ فرشتے اور رسول بھی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کر سکیں گے۔ (دیکھیے نجم : ۲۶) سفارش تو دور کی بات ہے، وہاں اجازت کے بغیر کوئی بول بھی نہیں سکے گا۔ (دیکھیے طٰہٰ : ۱۰۹) حتیٰ کہ سید الانبیاء والرسل صلی اللہ علیہ وسلم بھی سفارش کے لیے جائیں گے تو سجدے میں گر جائیں گے، لمبی مدت تک تسبیح و تحمید کے بعد سر اٹھانے اور سفارش کرنے کی اجازت ملے گی تو سفارش کریں گے، جیسا کہ حدیث شفاعت میں معروف ہے۔ حَتّٰى اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ ....: ’’فَزِعَ يَفْزَعُ‘‘ (س) گھبرا جانا۔ ’’فَزَّعَ يُفَزِّعُ‘‘ (تفعیل) گھبراہٹ دور کرنا، خصوصاً جب اس کے ساتھ حرف ’’عَنْ‘‘ ہو۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے پہلے جملے ’’ وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ ‘‘ کے ساتھ اس جملے کا کیا تعلق ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ تم جن ہستیوں کو اپنا سفارشی سمجھتے ہو اور کہتے ہو کہ وہ اپنے زور یا دبدبے یا اللہ کا محبوب ہونے کی وجہ سے اپنی بات منوا لیتے ہیں، ان کی کیا بساط ہے کہ اجازت کے بغیر سفارش کی جرأت کر سکیں۔ وہاں تو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے سامنے عرشِ معلی کے فرشتے اور ان کے نیچے آسمان دنیا تک کے فرشتے، جو برابر احکامِ الٰہی سنتے ہیں، ان کا یہ حال ہے کہ جب رب العزت کوئی وحی فرماتا ہے تو وہ سب اس کی ہیبت سے تھر تھرا اٹھتے ہیں، پھر جب اللہ تعالیٰ اس ہیبت کو ان کے دلوں سے ہٹا لیتا ہے تو ہر گروہ اپنے سے اوپر والے سے پوچھتا ہے کہ رب تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے؟ ’’ قَالُوا الْحَقَّ ‘‘ وہ کہتے ہیں، اس نے حق فرمایا ہے۔ ’’ وَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ ‘‘ اور وہی سب سے بلند اور بہت بڑا ہے۔ چنانچہ وہ فرشتے اپنے نیچے والے فرشتوں کو حق تعالیٰ کی وحی کسی کمی بیشی کے بغیر پہنچاتے ہیں۔ پھر جب مقربین ملائکہ کی یہ حالت ہے، جو وحی کے عادی بنا دیے گئے ہیں، تو مشرکین کسی اور سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ بخاری نے اس آیت کی تفسیر میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِذَا قَضَی اللّٰهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَالسِّلْسِلَةِ عَلٰی صَفْوَانٍ، قَالَ عَلِيٌّ وَ قَالَ غَيْرُهُ صَفْوَانٍ يَنْفُذُهُمْ ذٰلِكَ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوْا لِلَّذِيْ قَالَ الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ، وَ مُسْتَرِقُو السَّمْعِ هٰكَذَا، وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ وَ وَصَفَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ، وَ فَرَّجَ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدِهِ الْيُمْنٰي، نَصَبَهَا بَعْضَهَا فَوْقَ بَعْضٍ فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ الْمُسْتَمِعَ، قَبْلَ أَنْ يَرْمِيَ بِهَا إِلٰی صَاحِبِهِ، فَيُحْرِقُهُ وَ رُبَّمَا لَمْ يُدْرِكْهُ حَتّٰی يَرْمِيَ بِهَا إِلَی الَّذِيْ يَلِيْهِ إِلَی الَّذِيْ هُوَ أَسْفَلُ مِنْهُ حَتّٰی يُلْقُوْهَا إِلَی الْأَرْضِ، وَ رُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ حَتّٰہ تَنْتَهِيَ إِلَی الْأَرْضِ فَتُلْقٰی عَلٰی فَمِ السَّاحِرِ، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ فَيُصَدَّقُ، فَيَقُوْلُوْنَ أَلَمْ يُخْبِرْنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا يَكُوْنُ كَذَا وَكَذَا؟ فَوَجَدْنَاهُ حَقًّا، لِلْكَلِمَةِ الَّتِيْ سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ)) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿إلا من استرق السمع....﴾ : ۴۷۰۱ ] ’’جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کے سامنے عاجزی اختیار کرتے ہوئے اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہیں۔ (انھیں اللہ کا فرمان اس طرح سنائی دیتا ہے) جیسے وہ صاف چکنے پتھر پر زنجیر کی آواز ہو، تو جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کی جاتی ہے تو وہ (آپس میں) پوچھتے ہیں : ’’تمھارے رب نے کیا فرمایا؟‘‘ وہ کہتے ہیں : ’’اس نے حق فرمایا اور وہی سب سے بلند، بہت بڑا ہے۔‘‘ اس گفتگو کو چوری سننے والے شیاطین بھی سن لیتے ہیں، جو اس طرح ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں۔‘‘ حدیث کے راوی سفیان نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے اپنے ہاتھ کو کنارے کے رخ کیا اور انگلیوں کو کھول دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تو وہ شیطان وہ بات سن لیتا ہے اور اپنے سے نیچے والے شیطان کو بتا دیتا ہے (یہ سلسلہ نیچے تک چلتا ہے)، یہاں تک کہ سب سے نیچے والا وہ بات کسی جادوگر یا کاہن کو پہنچا دیتا ہے، پھر کبھی اس سے پہلے کہ وہ نیچے والے کو بات پہنچائے اسے آگ کا انگارا آ دبوچتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے اور کبھی اس کے لگنے سے پہلے وہ اس بات کو آگے پہنچا دیتا ہے، تو وہ (جادوگر یا کاہن) اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتا ہے، تو (جب آسمان سے سنی ہوئی بات صحیح ہو جاتی ہے تو اس کے ماننے والوں کی طرف سے) کہا جاتا ہے کہ کیا فلاں فلاں دن اس (جادو گر یا کاہن) نے ہمیں اس طرح نہیں کہا تھا؟ تو اس ایک بات کی وجہ سے جو شیطان نے آسمان سے سنی تھی کاہن یا ساحر کی بات کو سچا سمجھ لیا جاتا ہے۔‘‘