الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ
سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور جو زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور سب اسی کی تعریف ہے آخرت میں اور وہ حکمت والا خبردار ہے
1۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ ....: حمد کا معنی کسی کی خوبی کی وجہ سے تعریف ہے۔ یہ سورت ان پانچ سورتوں میں سے ایک ہے جن کی ابتدا ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ‘‘ سے ہوتی ہے اور وہ ہیں سورۂ فاتحہ، انعام، کہف، سبا اور فاطر۔ پانچوں میں سب تعریف اللہ کے لیے ہونے کی الگ الگ دلیل بیان کی گئی ہے، اگرچہ ان سب کا ایک دوسری کے ساتھ بھی تعلق ہے۔ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ‘‘ کہنے میں صرف یہی بات نہیں آتی کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، بلکہ یہ بات بھی آتی ہے کہ تمام خوبیوں کا مالک بھی وہی ہے، کیونکہ خوبی نہ ہو تو تعریف کیسی؟ اور سب تعریف اور تمام خوبیاں اللہ کے لیے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آسمانوں میں جو کچھ ہے، یا زمین میں جو کچھ ہے، مراد پوری کائنات میں جو بھی چیز ہے اس کا مالک وہی ہے۔ اسی نے سب کچھ پیدا کیا، وہی انھیں قائم رکھے ہوئے ہے اور وہی ان کی تدبیر فرما رہا ہے۔ کسی بھی چیز میں اگر کوئی خوبی ہے تو اس کی عطا کردہ، پھر ہر خوبی اور ہر تعریف کا مالک اس کے سوا کون ہو سکتا ہے؟ 2۔ اس آیت کی تفسیر دو طرح ہے، ایک یہ کہ پہلے جملے ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں سب تعریف اللہ کے لیے ہے، کیونکہ دوسرے جملے ’’ وَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاٰخِرَةِ ‘‘ میں آخرت میں سب تعریف اس کے لیے ہونے کا ذکر ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ پہلے جملے ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں میں حمد اللہ کے لیے ہے۔ پھر آخرت میں حمد کا اللہ ہی کے لیے ہونا خاص طور پر دوبارہ ذکر فرمایا، کیونکہ دنیا میں تو بظاہر کسی اور کی بھی تعریف ہو جاتی ہے، مگر آخرت میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی حمد ہو گی اور ہر ایک کی زبان پر ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ‘‘ کا کلمہ جاری ہو گا۔ دیکھیے سورۂ زمر (۷۴)، اعراف (۴۳) اور فاطر (۳۴، ۳۵) یہ ایسے ہی جیسے سورۂ بقرہ کی آیت (۹۸) : ﴿ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِيْلَ وَ مِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ ﴾ میں لفظ ’’ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ ‘‘ میں سب فرشتے شامل ہونے کے باوجود جبریل و میکال کا الگ ذکر بھی فرمایا۔ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ‘‘ کے مزید فوائد کے لیے سورۂ فاتحہ کے فوائد ملاحظہ فرمائیں۔ 3۔ وَ هُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ : یعنی صرف وہ ایک ہے جس کا ہر کام محکم و مضبوط ہے اور جسے کائنات کے ذرّے ذرّے کی پوری خبر ہے، اس لیے اس کے کسی کام میں کوئی نقص ہے نہ عیب، جبکہ کوئی اور نہ پوری خبر رکھتا ہے نہ حکمت، اس لیے اس کے پاس عجز و فقر کے سوا کچھ نہیں، پھر حمد کس بات پر ؟